کوئٹہ :لاپتہ افراد کے لواحقین کی موسم سرما میں احتجاج تشویشناک ہے- ایچ آر سی پی

122

جو صورتحال پہلے ہی ناقابل برداشت تھی، اب اس نہج تک پہنچادی گئی ہے کہ وہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ہمراہ کوئٹہ کے موسم سرما میں کھلے آسمان تلے خیمہ زن ہیں۔

ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان سے اٹھائے جانے والوں کی گنتی کون کررہا ہے؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ریاست نے متاثرین کے اہل خانہ کی پریشانی کم کرنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا۔ حقیقت یہ ہے کہ دیگرصوبوں جیسے کہ خیبرپختونخوا سے انسانی حقوق کے کارکنوں کو اظہاریکجہتی کے لیے دھرنے میں شریک ہونے سے روکنے کے باعث لوگوں کی فکر اورغصے میں اضافہ ہوا ہے-

بیان میں کہا گیا ہے کہ انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدہ افراد نے رپورٹ کیا ہے کہ 30 نومبر 2018 تک اس کے پاس 2,116 حل طلب کیسز تھے، تاہم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) کو فیلڈ سے ملنے والی اطلاعات پرشدید تشویش ہے، جن کے مطابق اصلی تعداد بہت زیادہ ہے اور اس سے بھی زيادہ اہم بات یہ ہے کہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو اتنی توجہ نہیں مل رہی جتنی ملنی چاہیے۔

آج جاری ہونے والے ایک بیان میں، ایچ آرسی پی نے کہا کہ ہم ان خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہارکرتے ہیں جنہوں نے نومبر میں پہلے کوئٹہ پریس کلب کے باہر کیمپ لگائے رکھا اور پھر انہیں اپنا دھرنا جاری رکھنے کے لیے وزیراعلیٰ ہاؤس کی طرف منتقل ہونے پرمجبورکیا گیا۔ وہ حکومت سے اس چیز کی یقین دہانی چاہتے ہیں کہ انہیں دہری قانونی کاروائی کا حق دیا جائے گا۔

‘ بیان کے مطابق ایچ آرسی پی کے لیے یہ چیز بہت زیادہ تشویشناک ہے کہ جبری طور پر اٹھائے گئے لوگوں کے اہل خانہ کے لیے جو صورتحال پہلے ہی ناقابل برداشت تھی، اب اس نہج تک پہنچادی گئی ہے کہ وہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ہمراہ کوئٹہ کے موسم سرما میں کھلے آسمان تلے خیمہ زن ہیں۔ ایچ آرسی پی کے کوئٹہ چیپٹر، کونسل ممبرز اور وائس چئیرپرسن باقاعدگی کے ساتھ دھرنے میں شریک ہوتے ہیں تاکہ جبری گمشدگیوں پرکمیشن کا موقف واضح ہو اورمتاثرین کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہو۔

‘ایچ آرسی پی کے لیے یہ امرلائق تحسین ہے کہ حکومت نے مظاہرین کے مطالبات کو سننے کا وعدہ کیا ہے اوریہ جان کربھی کچھ حد تک اطمینان ملا ہے کہ مظاہرین وزیراعلیٰ ہاوس سے واپس چلے گئے ہیں مگر کمیشن کا ریاست سے پرزورمطالبہ ہے کہ وہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو اس سے زیادہ سنجیدہ لے جتنا وہ اس وقت لے رہی ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ریاست نے متاثرین کے اہل خانہ کی پریشانی کم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ دیگرصوبوں جیسے کہ خیبرپختونخوا سے انسانی حقوق کے کارکنوں کو اظہاریکجہتی کے لیے دھرنے میں شریک ہونے سے روکنے کے باعث لوگوں کی فکر اورغصے میں اضافہ ہوا ہے۔

‘ ایچ آرسی پی کا حکومت سے ایک بار پھرمطالبہ ہے کہ نہ صرف جبری گمشدہ لوگوں کا سراغ لگانے اورانہیں بازیاب کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں بلکہ اس امرکو یقینی بنایا جائے کہ لوگوں کو اٹھانے والوں کو سزاملے؛ جبری گمشگی جرم قرار پائے اور ملک کے عالمی فرائض اوراپنے عوام کے جانب اخلاقی ذمہہ داریوں کی روشنی میں اقوام متحدہ کے متعلقہ معاہدوں کی توثیق ہو۔’