کندھار موجودگی سوالیہ نشان یا پاکستانی خودکش حملہ آور؟ – جہانگیر بلوچ

632

کندھار موجودگی سوالیہ نشان یا پاکستانی خودکش حملہ آور؟

جہانگیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جنرل اسلم بلوچ، بلوچستان کے ان ناموں میں سے ایک ہیں جو بلوچ کی تاریخ میں اہم ترین شخصیات میں شمار ہوتا ہے۔ جنرل اسلم بلوچ مستونگ کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، جنرل اسلم بلوچ نے اپنے ۲۵ سالہ مزاحمتی سفر کا آغاز نواب خیر بخش مری کی دی گئی اسٹیڈی سرکلز سے کرتے ہوئے، بے لوث قومی جذبے سے بڑی مہارت اور بھر پور سچی لگن کیساتھ کاروان کو دن بہ دن اپنی محنت سے بہتر طریقہ عمل اور دانشمندانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آگے لے جاتے رہے، بغیر کسی بھی چیز کی پرواہ کرتے ہوئے اپنے مقدس مقصد کی خاطر تحریک کو مستحکم کرنے کے لیے اپنی صحت، گھربار اور اپنا قیمتی وقت کسی بھی چیز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی قومی ذمہ داریاں بخوبی سر انجام دیتے رہے اور دورانِ مزاحمت وہ اپنی بہادری اور جنگی مہارت سے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچ قوم کے ایک اہم رہنما بنے۔

انہوں نے جنز آزادی کو مجید بریگیڈ کی شکل میں اک نئی جان بخشی۔ جنرل اسلم بلوچ کی صورت میں، کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار اس کی لیڈر شپ پر ہوتا ہے، جس کے بغیر آزادی کی اُمید ایک خواب ہی ہو سکتا ہے۔ ہر انسان کے اندر کچھ خاص خصوصیات اور صلاحیتیں ہیں۔ کسی میں سائنسدان بننے کی صلاحیت پائی جاتی ہے، تو کوئی جان و تن کی بازی تک لگانے کے مقدس جذبے سے سرشار ہوتا ہے، جس کا اعلیٰ مثال جنرل اسلم بلوچ کے اپنے لخت جگر ریحان جان کی شکل میں بلوچ قومی تحریک میں ایک زندہ مثال ہے۔

مسلسل جہد آزادی یا موت کے فلسفے کا حامی جنرل اسلم بلوچ 25 دسمبر کے سیاہ دن کو پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کے بھیجے ہوئے خودکش حملہ آور کے حملے میں اپنے 5 ہمراہ سمیت شہید ہوئے۔ تاریخ کے اس سیاہ دن کے بعد ایک روشن مستقبل آزاد بلوچستان کے ضامن وہ لاکھوں بلوچ نوجوان ہیں، جو آج جنرل اسلم بلوچ کی شہادت پر مایوس نہیں بلکہ پر جوش اور مسلسل جہد آزادی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

اسلم بلوچ کی شہادت کے بعد پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اپنے سائبر نیٹورک کے زریعے بلوچستان میں جاری خالص آزادی کی جنگ کو اپنے روایتی انداز میں پراکسی وار ظاہر کرنے اور اپنے غیر انسانی جرائم کو منوانے کے لیے اپنے ناپاک ہتھکنڈوں کا سہارا لے رہی ہے۔

مہذب دنیا کے لیئے جنرل اسلم بلوچ کا کندھار میں موجودگی کوئی حیرت کی بات نہیں، کیوںکہ کندھار تاریخی حوالے سے بلوچوں کا دوسرا گھر رہا ہے، اور افغانستان ہمیشہ خندہ پیشانی سے اپنے بلوچ بھائیوں کی ہر ممکن مدد کے لیے پیش پیش رہا ہے۔ چاکر رند سے لیکر اسلم بلوچ تک، بلوچ کی تاریخ میں افغان زمین نے ہمیشہ سگی ماں کا کردار ادا کیا ہے۔ اگر کندھار کا جغرافیائی جائزہ لیا جائے تو بلوچ وہاں ہزاروں سال سے ایک بڑی تعداد میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ افغان مردم شماری کے مطابق افغانستان میں بلوچوں کی آبادی تقریباً 600,000 ہے، جن میں سے تقریباً 400,000 بلوچی بولنے والے ہیں اور 200,000 بروہی۔ بلوچوں کی اکثریت جنوبی افغانستان میں موجود ہے، جو بلوچ بلوچی بولنے والے ہیں وہ زیادہ تر صوبہ نیمروز میں رہتے ہیں اور بروہی بولنے والے کندھار میں۔ اور افغانستان کے دیگر علاقوں میں رہنے والے بلوچ پشتو زبان میں بات کرتے ہیں۔

بلوچ ثقافتی طور پر مہمان نوازی سے جانے جاتے ہیں، بلوچ کی تاریخ میں مہمان نوازی کے کئی دلچسپ قصے ہیں۔ اور اسی آڑ میں دنیا میں کسی بھی کونے سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی بلوچ اپنے مزاحمت کاروں کو پناہ اور مدد دینے سے پیچھے نہیں ہٹتا۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کندھار میں کوئی کیوں کسی بلوچ رہنما پر خودکش حملہ کرے گا؟ بلوچستان میں جاری آزادی کی جنگ آج پاکستان کی بنیادیں ہلا چکا ہے، جس سے چھٹکارا پانے اور 2013 سے شروع ہونے والی پاکستان چین اقتصادی راہداری جو چینی توسیع پسندانہ پالیسیوں کا حصہ ہے، اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ سی پی ای سی اپنے بنیاد سے بلوچ مزاحمت کاروں کا نشانہ رہا ہے، بلوچستان میں موجود تمام مزاحمتی تنظیموں نے سی پی ای سی پر سینکڑوں کی تعداد میں حملے کرچکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سی پی ای سی ابتک کسی بھی قسم کی کامیابی تک نہیں پہنچ سکا۔ سی پی ای سی، کے سامنے ڈٹے بلوچوں کے خلاف پاکستان نے اپنے طاقت کا بھرپور استعمال کیا، ہزاروں بلوچوں کے اغواء سے لیکر بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا نا، ہزاروں خاندانوں کو بےگھر کرنا، اور جس سے بھی خطرہ محسوس ہوا اسے مار دینا اس بربریت کا حصہ ہیں۔

ظلم بڑھتا رہا اور جنگ مزید شدت اختیار کرتی گئی، 2009 میں الجزیرہ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بقول شہید جنرل اسلم بلوچ کے “اگر پاکستان اپنی طاقت سے بلوچ پر زیادہ پریشر ڈالے گا، وہ زیادہ دبانے کی کوشش کریگا، ہم زیادہ ابھریں گے۔” چلتے چلتے، بڑھتی ہوئی پاکستانی اور چینی مظالم سے، جنگ نے اپنی شکل بدل دی، بلوچستان میں کمربستہ مسلح جہد کاروں نے فدائی حملوں کا آغاز کیا، جس کی رہنمائی بلوچ لبریشن آرمی کی قیادت کر رہی ہے، جس میں جنرل اسلم بلوچ ایک اہم رہنما تھے اور فدائی حملوں کا آغاز بھی انہوں نے اپنے لخت جگر، اپنے بیٹے ریحان بلوچ سے کیا۔

ریحان بلوچ نے بلوچستان کے علاقے دالبندین میں چائنیز انجینئرز پر فدائی حملہ کیا، جس میں 3 چینی باشندے زخمی ہوئے جو سی پی ای سی کو لیکر چین اور پاکستان کی ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا۔ اور اس کے بعد اسی تنظیم کے مجید بریگیڈ نے ایک اور حملہ کیا جو حال ہی میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کیا گیا، اس حملے نے نہ صرف پاکستان اور چین کو چونکا دیا بلکہ پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ کراچی چینی کونسل خانہ جو آج کے دور میں پاکستان کا حساس ترین جگہ ہے اس پر ایک کامیاب حملہ، چین کو دی گئی پاکستانی تحفظ کے لئے ایک بہت بڑا سوال بن گیا۔ پاکستان نے چین کو منوانے کے لیے طرح طرح کے کارنامے انجام دیئے، ان میں چینی کونسل خانے کے ایک حملہ وار کی خاندان کو اغواء اور بلوچستان میں نہتے بلوچوں پر ملٹری آپریشنز اور اغواء شدہ بلوچوں کے فیک انکاؤنٹرز میں مارے جانا شامل تھے۔

ان سب کے بعد کس طرح پاکستان جنرل اسلم بلوچ کو ٹریس کرنے میں کامیاب ہوا اور اپنے روایتی دہشتگردانہ انداز میں، شدت پسند مذہبی دہشت گردوں کا سہارا لیکر جنرل اسلم بلوچ کو انکے پانچ ساتھیوں سمیت شہید کرنے میں کامیاب رہا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ افغانستان میں موجود مذہبی دہشت گرد تنظیموں کی رہنمائی اور پذیرائی پاکستان کر رہی ہے، 1994 میں کندھار میں ہونے والے دہشت گرد حملے سے لیکر حال ہی میں جنرل اسلم بلوچ کی شہادت تک سبھی ڈور پاکستان سے جڑتے ہیں، جن میں ہزاروں معصوم جانیں جاچکی ہیں۔ لہٰذا مہذب دنیا کو چاہیئے کہ وہ پاکستان اور چین کی توسیع پسندانہ انسان و امن دشمن سازشوں کے خلاف ایک آزاد بلوچستان کے جہد میں مظلوم بلوچوں کا ساتھ دیں جو کے اس خطے میں امن کا ضامن ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔