کس جرم کی پائی ہے سزا – سعدیہ بلوچ وائس چیئرپرسن بی ایس او

560

کس جرم کی پائی ہے سزا

تحریر۔ سعدیہ بلوچ  – وائس چیئرپرسن بی ایس او

دی بلوچستان پوسٹ 

معلوم نہیں جرم کیا ہے ،
اور سزا کس چیز کا اور کیوں زندان میں پڑے ہیں کون جانے؟
ظلم اور بر بریت کے یہ ضابطے جب سے مادر وطن پر نافذ ہیں تو جبری گمشدگیاں اور ماوراعدالت گرفتاریاں، مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ اپنے عروج پر ہے۔

سیاست کرنا گویا جرم بن گیا ہے گناہ کبیرہ اختیار کر گئی ہے۔ ہر ذی شعور انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ سوچے سیاست کرے سیاسی خیالات رکھے اور کسی نظریے پر کاربند ریے اسے کوئی قانون اور آئین روک نہیں سکتا۔
لیکن ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہاں سوچنا بولنا ،الگ زوایہ اور خیال رکھنا محال بناہے۔ لیکن زندہ معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔

بی ایس او کے مرکزی چئیرمین سنگت ظریف بلوچ،سکریٹری جنرل چنگیز بلوچ، سینئیر جوائینٹ سکریٹری جیئند بلوچ، سیکریٹری اطلاعات اورنگ زیب بلوچ، اور حسنین بلوچ کو جس طرح اٹھا کر غائب کیا گیا ملکی آئین ،قانون اور انصاف کے اداروں کی پامالی اور خلاف ورزی ہے۔ جس سے ملک کے قانون اور آئین پر عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔کسی ملک اور ریاست کا بنیادی ستون آئین ہوتا ہے۔ اگر ملک کے اندر آئین اور قانون نامی کوئی چیز نہ ہو اور ملک کے ادارے اپنے مرضی اور منشا سے حرکت کریں ہر کوئی اپنے مطابق خود کو چلائے تو ملک کے حال اور مستقبل کے بارے میں سیاسی ناقدین شکوک و شبہات کے شکار ہوجاتےہیں۔

بی ایس او ایک پرامن جموری تنظیم ہے اس کے مقاصد اور اہداف عوام کے سامنے واضح ہیں، اس کے پروگرام اور اغراض و مقاصد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ بی ایس او جمہوری اکیڈیمک سیاست کے ساتھ ساتھ طلبا کے تعلیم و تربیت، نظریہ ،فکر ،اور شعوری سیاست کو اولیت دیتی ہے۔

بی ایس او اپنا یہی پروگرام منظم انداز میں آگے لے جائے گی بی ایس او کے علمی ،فکری اور شعوری پروگرام سے کسی کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بی ایس او ملکی آئین کے دائرے میں رہ کر طلبا حقوق کی بات کرتی ہے اور حقوق کے حصول کے لیے پر امن سیاسی جدوجد جاری رکھتی ہے۔

بی ایس او کے قیادت کو گرفتار کر کے لاپتہ کرنا جمہوری سیاست کے راہوں کو بند کرنا ہے اور نوجوانوں کو غیر جمہوری راستوں کی طرف دھکیلنا ہے۔

بی ایس او کے چئیرمین سنگت ظریف رند، سیکریٹری جنرل چنگیز بلوچ، سینئیر جوائینٹ سکریٹری جیئند بلوچ ،سیکریٹری اطلاعات اورنگ زیب بلوچ اور حسنین بلوچ امن کے داعی تھے مہم جوئی ،انتہا پسندی ،مسلح جدوجہد، موقع پرستی اور رجعت پسندی کے خلاف شعوری و علمی جدوجہد کر رہے تھے۔ شعور کے اس سفر میں رکاوٹیں ڈالنے کے کیا عزائم ہوں گے، یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔

بی ایس او کے قائدین کے باحفاظت بازیابی کے لیے ملکی قانون، عدلیہ اورانسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریاں ادا کرکے اس عمل کو ممکن بنائیں تاکہ انتہا پسندی، مہم جوئی اور رجعت پسندی کے خلاف جاری یہ سفر اپنے تکمیل تک پہنچ کر ایک مضبوط آئین اور قانون کی ضمانت بن سکے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔