عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پولیو کے مرض کے پھیلاؤ کو صحتِ عامہ کی ایمرجنسی قرار دینا چاہیے کیوں کہ ایک جانب جہاں اس کے مکمل خاتمے کی کوششیں کی جارہی ہیں تو دوسری جانب یہ کوششیں بے کار ہورہی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی بین الاقوامی ایمرجنسی کمیٹی کی عہدیدار لیلن ریس کا کہنا تھا کہ ہم پولیو کے خاتمے کے بہت قریب ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں تمام تر عالمی وسائل بروئے کار لانے ہوں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ صورتحال کا تقاضہ یہ ہے کہ بین الاقوامی توجہ کیلئے صحت عامہ ایمرجنسی نافذ کردی جائے۔
عالمی ادارہ صحت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں پولیو کے 27 کیسز سامنے آئے جو تمام کے تمام پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھتے تھے جہاں یہ مرض اب بھی پنجے گاڑے موجود ہے۔
لیلن ریس کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کو اس حوالے سے بہت تشویش ہے کیوں کہ یہ تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ ہے اور انہوں نے حکومتوں پر زور دیا کہ معذوری کا سبب بننے والے اس مرض کے مکمل خاتمے کے اقدمات کیے جائیں۔
واضح رہے کہ پولیو کا وائرس اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے جو چند گھنٹوں میں لاعلاج معذوری کا باعث بن سکتا ہے اور بچوں میں تیزی سے پھیلتا ہے خاص کر جہاں صفائی کے بہتر انتظامات نہ ہوں، جنگ زدہ خطوں ، پناہ گزین کیمپوں،اور ایسے علاقے جہاں صحت کی سہولیات محدود ہیں وہاں یہ تیزی سے کام کرتا ہے۔
اس مرض کی روک تھام ویکسین کے ذریعے ممکن ہے لیکن اس کے لیے حفاظتی ٹیکوں کی مقدار زیادہ ہونی چاہیے اور اتنا وقفہ ہونا چاہیے کہ وائرس کو مزاحمت کا موقع نہ مل سکے۔
خیال رہے کہ عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کی مہم کا آغاز 1988 میں کیا گیا تھا جس کا مقصد سال 2000 تک اس مرض کا مکمل خاتمہ کرنا تھا۔
اب جب عالمی سطح پر باآسانی 99 فیصد اس کی روک تھام ہوچکی ہے تویہ ایک فیصد بچ جانے والی مزاحمت کا خاتمہ خاصہ مشکل ثابت ہورہا ہے۔
پاکستان اور افغانستان میں پولیو کے خاتمے کی کوششیں اس لیے ناکام ہوجاتی ہی کہ یہاں انہیں مذہبی شدت پسندوں اور طالبان کی مخالفت کا سامنا ہے جو سمجھتےہیں کہ حفاظتی ٹیکے مسلمان بچوں کو بانجھ کرنے کی کوشش ہے تا کہ مغربی ایجنڈے کی تکمیل کی جاسکے۔