پاد بیت مرگا آ رواگی انت یار – برزکوہی

268

پاد بیت مرگا آ رواگی انت یار 

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

پہلے انسان سمجھتا تھا کچھ واقعات، افسانوی کہانی، جھوٹ، مبالغہ آرائی اور مفروضات بھی ہوسکتے ہیں، مگر اب نہیں، ہر انوکھا اور حیرت انگیز واقعہ حقیقت بھی ہوسکتا ہے یعنی دنیا میں کوئی بھی چیز ناممکن نہیں بلکہ مشکل ہی سہی آسان نہیں ہوتا لیکن ناممکن ہرگز نہیں ہوتا۔

کراچی چینی قونصلیٹ پر فدائین حملے کے دن صبح سویرے گہری نیند سونے کے مزے لینے والے وسیم اور ازل کو جب رازق ہنستے ہوئے جاگنے کو آواز لگاتا ہے: “پاد بیت یار وسیم و ڈاڈا مرگا رواگی انت نوں” (اٹھو یار وسیم و ڈاڈا مرنے کے لیے جانا ہے ابھی)

کیا یہ جنون شعور و عشق اور جذبے کی انتہاء نہیں ہے؟ کیا یہ دیدہ دلیری اور بہادری کی انتہاء نہیں ہے؟

وہ کیا کیفیت ہوگا، جب ہم فکر، ہم خیال، بہادر دوست اور تین یار فدائی حملے کے لیئے تیار ہوکر تینوں گاڑی میں سوار ہنستے اور قہقہے لگاتے ہوئے یہ کہہ دیں مجھے سب سے پہلے، بقول شہید رازق کہ شہید امیر ملک سے ملنا ہوگا کیونکہ وہ میرا جگری دوست ہونے کے ساتھ میرا نظریاتی استاد بھی تھا۔ وسیم جان ہنستے ہوئے بولے یار میں سب سے پہلے تو شہید ریحان کے پاوں پر پڑ کر سجدہ ریز ہونگا، جنہوں نے مجھے یہ راہ دکھایا، ازل جان اپنی خوش اخلاق، خوش مزاج طبیعت کے ساتھ مسکراتے ہوئے بولے، یار وسیم دیکھو ہم کتنے خوش قسمت ہیں شہیدوں کے ارمان کو لیکر شہیدوں سے جاکر ملینگے۔

ماہر مذاق شہید رازق زور سے ہنستے ہوئے “یار میں اور زیادہ کچھ نہیں کہتا ہوں، بس اتنا ضرور جانتا ہوں علاقائی اور عالمی میڈیا کے ساتھ خاص کر سوشل میڈیا میں بہت بڑا ہلچل مچ جائیگا، ایک دفعہ سارے حیران ہونگے بلال نے یہ فیصلہ کیسا اور کس طرح کیا؟ مجھے یقین ہے شروع شروع میں کسی کو یقین بھی نہیں ہوگا۔

تو یہ ساری باتیں حیرت انگیز ہی صحیح مگر تحریر کی خوبصورتی کے لیے افسانوی اور مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہیں۔ مادروطن بلوچستان ایسے بھی فرزند جنم دیکر اس وقت تک انھیں اپنے بغل میں پرورش دیکر جوان کرچکا ہے اور پھر اپنے تحفظ کے لیے قربان بھی کیا ہے۔

واقعی مادروطن بلوچستان ابھی تک بانجھ نہیں ہے، ابھی تک تروتازہ، خون کے ساون کے برسات سے سرسبز و آباد ہوکر رنگی برنگی پھولوں کی پیدوار میں کمی نہیں دکھا رہی ہے۔ آج سے 20 برس پہلے کوئی قومی آزادی کے لیے لڑنے کے لیئے نہیں سوچتا تھا، جب لڑائی شروع ہوئی اور وسعت اختیار کرگیا، تو فدائین حملہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن عمل تصور ہوتا تھا، مگر شہید درویش نے فدائی حملے کی قومی آزادی کی قومی جنگ میں جو بنیاد رکھی، آج اسی تسلسل کو شہید ریحان، ازل جان، وسیم جان اور رازق کی شکل میں لیکر یہ ثابت کررہے ہیں، اب بلوچ نوجوان اپنے مادر وطن کی حفاظت اور آزادی کے لیئے اس حد تک جانے کو تیار ہیں۔ اب قومی آزادی کی جنگ میں یہ موثر و پختہ گوریلا طریقہ کار رکے گا نہیں بلکہ شدت اور وسعت اختیار کریگا، آگے چل کر بے شمار بلوچ سرباز وطن کی بقاء، عظمت اور قومی آزادی کے لیئے اپنا سر ہتھیلی پر رکھ اسی طرح قربان ہونگے۔ بی ایل اے مجید بریگیڈ مستقبل قریب میں وطن کے فدائین کا ایک عالمی سطح کا اعلیٰ معیار کا منظم و مضبوط اور انتہائی متاثر کن اور آئیڈیل تنظیم بن کر ابھرے گا۔

کیونکہ آج بلوچ قوم خصوصاً بلوچ نوجوانوں کو مکمل یہ ادراک اور احساس ہوچکا ہے کہ جب تک بلوچ قومی آزادی کی قومی جنگ ایک قومی طاقت اور قومی قوت کی شکل میں دنیا کی طاقتوں کے سامنے توجہ کا مرکز نہیں ہوگا، اس وقت تک بلوچ قومی بقاء اور بلوچ سرزمین انتہائی خطرات اور مشکلات کا شکار ہوگا دنیا کے سامنے یا دنیا کے صفوں میں بحثیت ایک قوم اور ایک قومی طاقت اپنے آپ کو منوانا اور ثابت کرنا ایک منظم اور وسیع قومی جنگ کے علاوہ بلوچ قوم کے پاس اور کچھ نہیں ہے، ضرور قومی آزادی کی محدود اور جزوی سرگرمیوں اور مزاحمت سے دشمن کو تکلیف ہوگا مگر اس عالمی یلغار اور قابض ریاست کے بنیادوں کو ہلانے اور بلوچ قوم کو عالمی طاقتوں کے صفحات میں لاکھڑا کرکے ایک فریق کی حیثیت سے ثابت کرنا اور منوانا ایک موثر اور منظم جنگ اور شعوری تنظیم کے بغیر ناممکن ہے۔

اسی احساس ادراک اور شعور ہی نے ریحان، ازل، رئیس اور رازق کو یہ فیصلہ کرنے پر راغب کردیا کہ بلوچ قوم کو قومی فناء کی دھانے سے بچانا ہوگا، خود کو خود شعوری طور پر قربان کرکے اپنے سرزمین اور قوم کو فنا سے بچانا بلوچ فدائین کی علمی اور شعوری فیصلے کی بنیاد ہیں۔

آج انسانی تاریخ کے مطالعے اور سمجھنے سے یہ حقیقت سمجھ میں آتی ہے، وہ قومیں آج تاریخ کی صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لیئے مٹ چکے ہیں اور مکمل فناء ہوچکے ہیں، جن میں یہ علم و شعور، قومی احساس اور ادراک نہیں ہے کہ قومیں کس طرح اور کیسے دنیا کے نقشے سے مٹ کر فناء ہوچکے ہیں۔

آج بالکل بلوچ قوم اسی عہد سے گذر رہا ہے، بلوچ قوم کے پاس بچنے اور قومی بقاء کے تحفظ کے موقع کے باقی تمام حصے پورے طرح ہاتھ سے نکل چکے ہیں، صرف آخری موقع کے طور پر بلوچ قوم، دم کو ہاتھ میں پکڑ کر آخری مقام پر کھڑا ہے۔

بلوچ قوم کے بے شمار قربانیوں، خاص کر شہداء بلوچستان کی قربانیوں اور فیصلوں کی قدر و قیمت اور لاج کو ذہن میں اچھی طرح رکھ کر اسی فکر و احساس کے ساتھ انتہائی سنجیدگی، بالغ نظری، شعور اور ادراک کے ساتھ ہنری مندی اور جامع حکمت عملی کے ساتھ قومی جہد کو غیر روایتی انداذ میں آگے بڑھانے کی انتہائی حد تک ضرورت ہے اسی میں بلوچ قوم کی قومی بقاء کی تحفظ اور قومی آزادی کا حصول ممکن ہے، تب جاکر بلوچ قوم کے بے شمار قربانیاں اور شہداء کا خون رائیگاں نہیں بلکہ قومی مفاد کے لیے سود مند ثابت ہونگے۔