وہ جو کر گذرتے ہیں ۔ گلزمین بلوچ

225

وہ جو کر گذرتے ہیں

گلزمین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کبھی لہو سے بھی تاریخ لکھنی پڑتی ہے
ہر ایک معرکہ باتوں سے سر نہیں ہوتا

ہماری زندگی میں کچھ لوگ ایسے آتے ہیں جو کچھ ہی لمحوں میں، کچھ ہی دنوں میں کبھی کچھ گھنٹوں میں ایسی یاد چھوڑ کے جاتے ہیں جو ہم نے کبھی سوچا نہیں ہوتا، وہ اس طرح سے ہم سے دور چلے جائینگے جب انکی دور جانے کے بعد ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اب ہم اسے کبھی نہیں ملینگے، اس سے کچھ کہہ نہیں پائینگے، اسی لمحہ ہمیں یہ شدت سے احساس ہوتا ہے کہ کاش کچھ یادیں اور اس دوست سے وابستہ کر پاتے، پر وہ کرگذرنے والے ہوتے ہیں وہ کر جاتے ہیں۔

ایسے عظیم ہستیاں، جو ہمارے بیچ رہ کر ہمیں خبر کیئے بنا ہماری ترتیب کرتے ہیں، ہمیں وقت اور حالات پر نظرثانی کراتے ہیں، وہ یوں خاموشی سے بہت کچھ سکھاجاتے ہیں جیسے گمان بھی نا ہو، ہم کسی عظیم ہستی کے زیر اثر اسکے عمل سے تربیت لے رہے ہیں، اسکے تعلیمات سے ہم اسکے عمل کے ہمراہی بن جاتے ہیں اور وہ بتا جاتے ہیں کے وہ رک کر دیکھنے والے نہیں ہوتے، وہ کرگذرنے والے ہوتے ہیں، وہ کر جاتے ہیں۔

یہ کون لوگ ہیں؟ ہم نے کبھی سوچا بھی ہوگا کہ ہمارے بیچ رہنے والے ایسے عظیم ہستی پائے جاتے ہیں جو کبھی دلجان بن کر آخری گولی چن لیتے ہیں تو کبھی ریحان بن کر دشمن پر آگ بن کر برستے ہیں یا تو جلال، رئیس، ڈاڈا بن کر دشمن کے حصار میں گھس کر اپنے من چاہے شہادت کو چن کر ہمارے لئے چھوڑ جاتے ہیں تربیت اور یادیں، وہ تو کر گذرنے والے ہیں اور کر جاتے ہیں، وہ رک کر وقت کا انتظار نہیں کرتے، وہ انہی لمحوں میں سے وقت کا چناو کرتے ہیں، کیونکہ انکو کرنا ہے وہ کر جاتے ہیں، وہ کر گذر جاتے ہیں۔

شہدائے بلوچستان کی طویل داستان ہمیں ہر لحاظ سی مضبوط کرجاتی ہے، ہم کبھی کسی کے شہادت پر سوچنے پر مجبور ہوجاتے تھے، آج سمجھنے پر مجبور ہیں کے ایسے عظیم کردار کے مالک فرزند آج ہمارے دھرتی کے رکھوالے ہیں تو کیا دشمن اب بھی اپنے لئے خیر کی توقع کی کوئی جھوٹی امید رکھ سکتی ہوگی، میرے خیال میں بالکل نہیں کیونکہ اب دھرتی کے فرزند کرگذرنے والے بن گئے، انہیں کرنا ہوتا ہے اور وہ کر جاتے ہیں، اپنے مادر وطن کے لئے اب وہ جان سے گذر جاتے ہیں۔

فدائین نے جو کرگذرنے والے فلسفہ کی بنیاد رکھی ہے، ایک طرف تو دشمن کو نیست نابود کرنے کی جو پختہ حکمت عملی کی علامت بن چکی ہے، وہیں انکی بہادری، انکا نظریہ اور انکی سوچ قوم میں نیا جوش او جذبہ پیدا کرنے کا ایک عمل شروع کر چکا ہے، یوں ان بہادر سپوتوں کو جان ہتھیلی پر لیئے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتے، کرگذرتے دیکھ کر آج قوم انکے فلسفے پر عمل پیرا ہونے کو تیار کھڑا ہے۔

بلوچ گلزمین کے حرمت میں اس کے فرزندوں نے ہر دوڑ میں قربانی دی ہے اور ہنوز اس عمل میں ہر فرزند خود کو حصہ دار بناتا جارہا ہے اور ایسی بہادری کی مثال قائم کر جاتے ہیں کہ دیکھنے والے بھی عش عش کرکے رہ جائے کہ بلوچ دھرتی کے یہ فرزند کیسے یوں مسکراتے، آخری سانس تک خوشی خوشی سفر تک جاتے ہیں اور بتا جاتے ہیں رک کر انتظار مت کرو کر گذر جاؤ۔

بلوچ دھرتی کی اس طویل اور بے غرض جنگ میں جو بدلاؤ کی لہر ہے، انہی کامریڈوں کی دین ہے، ایسے بہادر سپوت شعور سے لیس بہادری کی مثال قائم کررہے ہیں اور وہ قیادت جو حقیقی جدو جہد اور جنگی ٹیکنیک پر مہارت رکھتے ہیں آج انکے ہاتھوں دھرتی کی جدوجہد کو دیکھ کر یقیناً آزادی کی صبح بس کچھ سفر طے کرنے کے بعد ہی آنے والا ہے، کیونکہ یہ اس صبح کا انتظار نہیں کرتے، وہ اسے چھین لاتے ہیں، اپنے جوانمردی، اپنے حوصلوں سے کیونکہ وہ کر گذرنے والے ہوتے ہیں۔

وہ کر گذرتے ہیں اور ہمیں مضبوط کرجاتے ہیں، وہ کرنے والے ہیں کیونکہ وہ بتا جاتے ہیں کہ وہ تھکے نہیں، وہ کرنا جانتے ہیں، وہ کر گذر جائینگے، آخری گولی چن کر پھر بتا جائینگے کے جو عشق وطن ہے، اس پر ہم جان دے کر حقیقی فرزند ہونے کا اعلان کرینگے اور وہ کرنے والے تھے اور کرگئے شیر کی طرح قدم بھڑاتے دشمن کے حصار میں گھس گئے اور چھوڑ گئے ہمارے لئے یادیں اور تربیت جنہیں لیئے ہم آج مضبوطی کے ساتھ انکے نظریے پر عمل پیرا ہیں۔

آج میرے دھرتی کا ہر سپاہی فدائین بنکر اپنی جان ہمارے اور اپنی آنے والے نسلوں کے لئے قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار کھڑا ہے، ہر ماں بی بی یاسمین کی طرح اپنے فرزند دھرتی پر ندر کرنے کے لئے بے چین ہے اور ہر والد استاد کی طرح ریحان کے ماتھے کو چوم کر دشمن کے لیئے لاؤ بنانے کو تیار ہے، اب کے بار جو یہ چلے ہیں تو کر گذرنے کو اور کر گذر کر ہی آخری منزل پر پڑاؤ ڈالینگے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔