مجھے اختلاف ہے
تحریر۔عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اختلاف کے بغیر سیاست چل نہیں سکتی، جمہوریت پروان نہیں چڑھتی، معاشرے تازہ نہیں ہوتے، نئی تحریکیں آگے نہیں بڑھتیں، خیالات میں اختلاف ہوسکتا ہے، جذبات میں اختلاف ہوسکتا ہے، نظریات میں اختلاف ہوسکتا ہے، رنگ کا اختلاف ہوسکتا ہے، زبان کا اختلاف ہوسکتا ہے، پارٹیز پر اختلاف ہوسکتے ہیں لیکن اختلافات کو برداشت کیا جاسکتا ہے انہیں سنا جاسکتا ہے کیونکہ اختلافات کوسننا اور انہیں حل کرنا اصل سیاست تصور کی جاتی ہے.
مجھے اختلاف ہے اپنے سیاسی کلچر سے، اپنی سیاسی ماحول جس میں میں سانسیں لے رہا ہوں، جہاں میں تربیت کے ابتدائی مراحل پر گذر رہا ہوں، یہ اختیار میرا ذاتی فیصلہ نہیں بلکہ وہ اختیار ہے جس پر ایک سیاسی کارکن اپنی تربیت کے مراحل پر سوالات اٹھائے وہ چیزیں جس سے ہمیں سیکھنے اور دنیا کو اپنی جانب راغب کرنا ہے کیا میں ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے اس معیار پر اترتا ہوں؟ جس کا دعویٰ ہمارے سرپرست کرتے ہیں؟ اپنوں سے بغاوت۔۔۔۔۔ما بعد الزاماتِ غداری۔۔۔۔۔اپنوں سے بغاوت پر معیار کیا ہیں؟ اس کا جواب میں کچھ اس طرح دوں کہ اپنوں سے بغاوت is a jenuen isssue of romanticism ما بعد اظہار کہ دوستوں سے غداری تو میں کہتا چلوں کہ یہ دوستوں کے ساتھ بدترین عمل ہے اگر اس میں واقعی غداری شامل ہو تو۔۔۔۔۔۔اختلاف کیوں؟ کیا کوئی ذاتی ایجنڈہ شامل ہے؟ کیا اختلاف رکھ کر اپنوں کو اپنی بساط کے مطابق رہنمائی کرنا جمہوریت کے خلاف ہے؟ اگر سیاسی کلچر اس چیز کا نام ہے تو ہم سیاست کو از خود اپنے ہاتھوں زمین بوس کررہے ہیں۔۔۔تو کیوں نا جن معاملات پر ہمیں وقتی فائدہ مل سکتا ہے ان پر حقیقی اختلاف رکھ کر مستقبل کی راہیں ہموار کی جائیں؟ ہم نے ہمیشہ یہ گنجائش رکھیں اپنے تربیتی ماحول میں اور سیاست کے دوران کہ چیزوں پر علمی بنیاد پر تبصرہ کریں کیونکہ اس سے ہمیں اپنے سینئیرز سے رہنمائی مل سکتی ہے اور جو چیز غلط ہورہا ہے اس پر لب کشائی جمہوریت اور سیاست کا حسن کہلاتا ہے۔کیونکہ ان اعمال سے ہمیں مستقبل قریب میں یہ موقع مل جاتا ہے کہ ہم اپنے قوم و عوام ان چیزوں کی ابتداء کریں جس سے وہ ہم سے دور ہیں۔
ہم ہمیشہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ جب اظہار ہوگا تو اسے سننا ہوگا گو کہ اظہار تعریفانہ ہو یا کہ تنقیدانہ۔۔۔۔۔سننا ہمیں اس مزاج سے ہوگا کہ اس سے ہمیں فائدہ ہو یہ تو اس عمل کی نفی ہی تصور کی جائے گی جس سے اختلاف رکھا جارہا ہے اسے سننے کے بجائے یہ کہنا کہ تم ایک ایجنڈے کا حصہ ہو یہ رویہ وہ عتاب ہیں جو پرندے کو اپنے شکنجے میں لے کر ان کا خاتمہ کرسکتا ہے اور اس عمل سے سیاسی تربیت جمود کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ میں کیوں نہ کہوں؟ میں کیونکر سوال نہ کروں؟ کہتے ہیں کہ اداروں کے اندر سوالات اٹھائیں سوالات اٹھیں گے یقینااداروں کے اندر اگر ادارے چند اشخاص کی من مانیوں پر آکر رک جائیں تو سوالات معاشرے میں موجود ان ذرائع سے اٹھائے جاسکتے ہیں جنہیں عوام سنتی ہوجنہیں وہ تمام کارکنان سنتی ہوں جس سے ایک راہ ہموار کی جا سکے، کہتے ہیں کہ کہو، بولو، چیخو۔۔۔۔۔۔۔یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آپ کیوں ان لوگوں کے لئے نہیں بولتے نہیں لڑتے جو ایک عذاب میں مبتلا ہیں؟ جو مصیبت میں ہیں ان کے لئے بولو۔۔۔۔۔۔ہم بولیں تو کس طرح؟ ایک طویل جدوجہد پر جب گذرتے لمحات اور وقت کی تشنگی برائےسوالات عروج پر ہو تو اصل سوالات اٹھیں گے کہ ہم کس جانب سفر کررہے ہیں؟ریاست اور ان کا رویہ ہمارے سماج کے ساتھ کیسا ہے وہ ایک الگ بحث ہے لیکن کیا ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈ پائے ہیں کہ ہمارے اندر سوالات کیوں اٹھائے جارہے؟ ہم آج اس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر بزور طاقت ہم من مانیوں کو روک نہیں پاتے تو کم از کم یہ امر ہم سے ہوسکے گا کہ بہ زبان اس عمل کو اچھا نہیں کہیں۔کیونکہ ہمارے ہاں یہ جذبہ ہے کہ جو مصیبت میں ہیں ان کے لئے ہمارے ہاں محبت ہو اور جو ظلم کررہے ہیں ان کے لئے نفرت لازمی ہی ہے۔
ہم کیوں کہتے ہیں کہ ہمیں اپنوں سے اختلاف ہے؟ کیا ہم صرف اس لئے جی رہے ہیں کہ ہمیں آنکھیں بند کر کے برائیوں پر منہ بند کرنا ہوگا یا کہ ہم اس عمل کو تناور کریں جس سے کمزوریوں کا ازالہ ہو اور ہم آگے سفر کرسکیں۔ کیا اس نظام میں جو تنقید کرسکتا ہے وہ مسترد ہوجاتا ہے اور تعریفوں کے پل باندھے وہ عزیز۔۔۔۔۔۔۔۔ کہیں ہم نے سوچا ہے کہ یہ عمل ہمیں تنزلی کی جانب دھکیل رہا ہے جس سے ہماری نموع غیر ممکن ہوتی جارہی ہے؟ جی سیاسی تحاریک کے اندر تنقید قبل از وقت وہ امر ہے کہ it was an unpopular dicision that happened in parties or movementلیکن اسکے نتائج کیا ہیں اس پر غور کرنا لازمی امر ہے۔ مصیبتیں آئیں گی مصائب کا شکار رہینگے لیکن جس عیار دشمن سے ہمارا مقابلہ ہے انہیں شکست دینے کیلئے ہمیں خیالی و خولی خیالات سے نکلنا ہوگا اور مضبوط سیاسی عمل کو آگے لیجانا ہوگا جس کے اندر تنقید اختلاف اور اظہار رائے پر جمہوری فیصلے کئے جائیں نا کہ آمریت کا بول بالاکرکے جمہوری دعوے کئے جائیں۔ سیاسی عمل کے اندر ہم صبر سے کیوں نا آشنا ہیں؟ وہ عمل جس سے آپ اپنے جذبات پر کنٹرول حاصل نہیں کرسکتے بہتر ہے کہ اپنے سیاسی عمل کے اندر صبر آزما لمحوں کو اپنے وجود میں پیوست کریں جس سے نئی راہیں کھلیں۔۔۔۔۔۔تنقید و اختلافات اگر اس نیت پر کی جائیں جس سے چلتی تحریک کو ایک نئی جہت مل جائے ماضی سے رونماء ہوتی کوتاہیوں کا ازالہ ممکن ہو تو کیوں نہ ہمیں اس عمل سے نکلنا چاہیئے جس سے ہم محض وقتی طور پر فائدہ حاصل کرتی ہوں لیکن وہ پائیدار عمل نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔جب ہم سیاست کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ہاں مختلف مسجدیں کیوں ہیں؟ گو کہ میں اس بات پرمتفق ہوں کہ جمہوری عمل کے اندر مختلف محاذیں ہونگی لیکن ان محاذوں کے اندر ذہنی ہم آہنگی اولین شرط ہے اور ہمارے ہاں اس کا فقدان ہے کیوں؟
جی میں اس بات پر اتفاق کرتا ہوں کہ جس موومنٹ میں اتنی ساری قربانیاں ہیں اور وہ توقع کرتی ہیں کہ تمام لیڈروں سے کہ we should take this piont seriously and go for jenuan interaspectionجس سے اس مسئلے کا حل نکل سکے جہاں ہمیں ہمیشہ کمزوریاں آن گھیرتی ہیں۔ کیا یہ واقعی حقیقت ہے جب ہم حقیقی بنیادوں پر تنقید کرتے ہیں نئی راہیں تلاشنے کی کوشش پر زور دیتے ہیں تو بکے ہوئے لوگ ہیں اور کسی دوسرے کے ایجنڈے پر گامزن ہیں کیا واقعی ایک سیاسی کارکن جنہوں نے اپنا سب کچھ تیاگ دیا ہو، اس تحریک کے لئے وہ جب اصل بنیادوں پر تنقید کرے اختلاف رکھے وہ sold out with the hand of othersہے؟ ہمیں سوچنا ہوگا غور کرنا ہوگا فکر مند رہنا ہوگا کہ ہم کس جانب سفر کررہے ہیں؟
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔