بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ لاپتہ افراد کے بارے میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اعتراف کرلیا ہے کہ بلوچستان سے ہزاروں لاپتہ افراد پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی حراست میں ہیں۔ یہ اب تک پاکستان کے سرکاری سطح پر سب سے بڑی اعترافی بیان ہے۔ اس سے قبل وزیر داخلہ، بلوچستان سیکریٹری داخلہ سمیت مختلف عہدیداریہ اعتراف کرچکے ہیں کہ فورسز لوگوں کو اٹھا رہے ہیں لیکن وزیراعظم کے اعتراف کے بعداقوام متحدہ، انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور مہذب دنیا کوپاکستان کے جنگی جرائم کا ضرور نوٹس لینا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر نئی حکومت بلوچستان کے عوام سے معافی مانگ کر نت نئے سازشوں اور مظالم کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ یہ پہلی حکومت ہے کہ جس نے معافی مانگنے کے بجائے یہ اعتراف کرلیا ہے وہ بلوچ لاپتہ افراد کے بارے میں اپنے آرمی چیف سے بات کررہے ہیں اور انہیں آرمی چیف نے بتایا ہے کہ کچھ لوگ چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ بلوچستان میں لوگوں کو پاکستانی فوج اور خٖفیہ ادارے حراست میں لے کر لاپتہ کررہے ہیں۔ مگر یہ لوگ لاپتہ نہیں بلکہ پاکستان کے تارچر سیلوں میں اذیت سہہ رہے ہیں۔ عمران خان
ترجمان نے کہا جنرل مشرف رجیم نے ترقی کے نام پر ایک خونریز فوجی آپریشن شروع کیا جو دوسری دہائی میں بھی جاری ہے۔ مشرف دور میں پہلے لوگوں کو اُٹھا کر مہینوں اورسالوں لاپتہ رکھ کر ٹارچر سیلوں میں منتقل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس میں کچھ لوگوں کو چھوڑ دیا جاتا تھا اور عدالتوں میں جھوٹے مقدمات بنائے جاتے تھے۔ 2008 میں پیپلز پارٹی آصف زرداری کی حکومت آئی تو بلوچ قوم سے پاکستان کے مظالم پر معافی مانگی گئی۔ اس کے بعداپنی پارٹی کے بانی ذوالفقار بھٹو کے ستر کی دہائی کے مظالم کو جاری رکھتے ہوئے بلوچستان میں مظالم کو ایک نئی رنگ دے دی گئی؛ یعنی ’’مارو اور پھینکو‘‘ کی پالیسی اپنا کرہزاروں بلوچوں کاقتل عام کیا گیا تاکہ بلوچ قوم خوف زدہ ہوکر قومی تحریک سے دست بردار ہوجائیں۔ 2013 میں نواز شریف نے بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح بلوچ قوم سے معافی مانگ کر ان سب مظالم میں جعلی انکاؤنٹر کا اضافہ کیا۔ اس سب دورانیہ میں پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان بلوچوں پر ہونی والی مظالم پر روتا رہا کہ فوج بلوچستان میں ظلم کررہاہے۔
ترجمان نے کہا کہ عمران نے حالیہ ایک پروگرام میں صحافیوں نے بات چیت میں اعتراف کیا کہ وزیر اعظم کی حیثیت اُس نے پاکستانی آرمی چیف سے بات کی ہے اور آرمی چیف نے بھی اعتراف کی ہے کہ لاپتہ افراد ہماری تحویل میں ہیں اور ان پر کیس اور الزامات ہیں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس قانون کے تحت خفیہ زندانوں میں رکھے ہوئے ہیں۔ یہ نہ پاکستانی قوانین کی پیروی ہے اور نہ عالمی قوانین کی۔ اس سے پہلے بھی عمران خان وزارت اعظمیٰ سے قبل ٹی وی پروگراموں میں برملا کہہ چکے ہیں کہ اگر میں وزیر اعظم بنا تو لاپتہ افراد گھر آئیں گے یا میں گھر جاؤں گا۔ یہ مختصر سی داستان پاکستانی سیاستدانوں کی بے ایمانی اور اقتدار کے لالچ کا منہ بولتا ثبوت ہیں کیونکہ اقتدار میں لانے والے وہی قوتیں ہیں جنہوں نے بلوچوں کو لاپتہ رکھا ہوا ہے۔ گوکہ یہ افراد لاپتہ نہیں اور ہر کسی کو پتہ ہے کہ وہ کہاں ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ 2014 میں مشہور صحافی حامد پر میر اس لئے گولیاں برسائی گئیں کیونکہ وہ لاپتہ افراد کے بارے میں بات کرنے کی جرات رکھتے تھے۔ اس دفعہ بھی پاکستانی صدر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان سے سوال کرنے والا حامد میر ہی تھا جس کے جسم میں دو گولیاں اب تک پیوست ہیں۔ اسی سال انسانی حقوق کے سرگرم کارکن شہید صبین محمود صاحبہ کو اس وقت گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا جب وہ ایک گھنٹہ پہلے بلوچ لاپتہ افراد کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ماما قدیر، فرزانہ مجید اور معروف دانشور محمد علی تالپور صاحب سے اپنے کیفے میں ملاقات اور ایک پروگرام کا انعقاد کر چکی تھیں۔ غرض ہر اس آواز کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی جو بلوچ نسل کشی کے بارے میں بلند کی جاتی تھی۔
ترجمان نے کہا کہ عمران خان کا حالیہ اعتراف دنیا کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہونی چاہئیں۔ یہ اعتراف ان چالیس ہزار بلوچوں کی جانیں بچا سکتی ہے جس کیلئے ہزاروں خاندان لاکھوں افراد کے ساتھ دربدر ہیں۔ دس ہزار کے قریب بلوچوں کو فوجی آپریشنوں، دوران حراست یا جعلی مقابلوں میں قتل کر دیا گیا ہے۔ یہ نسل کشی ہے۔ اس میں ٹیچر، ڈاکٹر، مزدور، فنکار، لکھاری، انجینئر سمیت تمام پیشہ سے تعلق رکھنے والے افراد نشانہ بن رہے ہیں۔ گوکہ یہ نسل کشی کسی سے پوشیدہ نہیں مگر پاکستانی وزیر اعظم کا بیان اس پر مہر ثبت کرچکی ۔ اس پر اقوام متحدہ سمیت عالمی قوتوں اور عالمی عدالت انصاف کو اپنا حقیقی کردار ادا کرنا چاہئے۔ اگر اس انسانی المیہ پر اسی طرح خاموشی اختیار کی گئی تو اس کا ازالہ اور مظالم کی حدود کا اندازہ لگانا ناممکن ہوجائے گا۔