قیادت کی شہادتیں اور تنظیمی ساخت کی اہمیت – نادر بلوچ

488

قیادت کی شہادتیں اور تنظیمی ساخت کی اہمیت

نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قوم پر تاریخ میں جاری مظالم کی داستان بیان کریں تو ایسا دن نہیں گذرتا کہ ریاستی قبضہ گیر قوتوں کی جانب سے بلوچ گواڑخ کو لال رنگ سے نہلایا نہیں جاتا۔ بے گور و کفن لاشوں سے لیکر بندوق اور بارود کو اپنے سینوں پر سہنے والے بلوچ فرزندوں کی لاشیں ہزاروں میں پہنچ چکی ہیں۔ دشمن جہاں اپنی بے رحمی کو زیادہ کرنے کے طریقوں میں مگن ہے وہیں پر بلوچ نوجوانوں کی قربانیوں کے طور طریقہ بھی بدل چکا ہے۔ ہر محاذ اپنی جگہ پر متحرک ہوتی جارہے ہیں، نوجوانوں کا جذبہ قابل دید ہوتی جارہی ہے، جہد آزادی کی توار متواتر گونج رہی ہے اسی گونج کو برقرار رکھنے کیلیے نوجوان سیاسی و مزاحمتی صف بندیوں میں مشغول ہیں۔ کامیابی و آجوئی کی روشن ہوتی چراغ امید کے ساتھ چمک و دمک رہی ہے۔

نیشنل ازم کی اس تحریک میں بلوچ شہداء قومی سطح پر موجود تفریق مٹا کر قوم اور سیاسی کیڈر کو یکجاء ہونے کا راستہ فراہم کر رہی ہے۔ بلوچ قوم ماتم و سوگ سے انکار کر چکی ہے بلکہ شہداء کی قربانیوں کے بدلے انکے کردار کو اجاگر کرنے کا فن اپنا کر قابض قوتوں کو پیغام دے رہی ہے کہ اب مسخ شدہ لاشوں اور بارود کی مہک سے بنے نوجوانوں کی قتل عام پر بلوچ قوم خاموش و خوفزدہ ہونے کے بجائے قومی تحریک میں مظبوط و مربوط کردار ادا کرکے شہداء کے کردار کو اپنائیں گے اور اس خلاء میں اپنی جان اور لہو شامل کریں گے۔ دشمن کو اس شرمندگی کا احساس دلانے کے لیے نوجوان شعوری فیصلہ کرکے تحریک کی بنیادی صفوں کی زینت بن رہی ہیں۔

بیس سالہ جہد نے جہاں عظیم سنگتوں اور بزرگ و معتبر رہنماوں کی شہادتوں نے ناموں کی طویل فہرست اور تاریخ ساز واقعات فراہم کرکے آزادی پسند اقوام میں جوش و ولولہ پیدا کیاہے، دوسری جانب اس لاثانی جہد نے بلوچ قوم اور وطن کے باشعور فرزندوں میں جہد آزادی کا جذبہ و حقیقت کو آشکار کرکے نیشنل ازم کی حتمی و واضح تعریف بیان کر کے آنیوالی نسلوں کو ہموار راستہ فراہم کی ہے۔ تحریک آزادی کی جہد خوش قسمت اقوام اور نسلوں کو نصیب ہوتی ہیں اور خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جو اس راستہ پر چل کر ہمیشہ کیلیے امر ہو جاتے ہیں۔ اب بھلا کسی سنگت کی شہادت جیسے عظیم رتبے پر فاہز ہونے پر ارمان، سوگ، و افسوس کیسے کی جاسکتی ہے۔ بلکہ ان کی کامیابی پر خوش ہونا چاہیئے کہ جس راستے کا انتخاب کیا تھا، اسی پر یہ فرزند امر ہوگئے۔

سنگتوں کی شہادتوں کی تاریخ صدیوں پرانی ہے، جوان سے جوان بزرگ سے بزرگ بلوچ نے وطن کی آجوئی اور ننگ و ناموس کی حفاظت کے لیئے سرخ لہو بہایا ہے لیکن کبھی بھی قومی آزادی کی حفاظت پر سمجھوتہ نہیں ہونے دیا ہے۔ بلوچ جس خطہ ارض پر رہ رہے ہیں یہاں کی سرزمین نے اتنا پانی نہیں جذب کیا جتنی بلوچ فرزندوں کی لہو سے سیر آب ہوا ہے۔ صدیوں کی ٹھوکروں نے بلوچ قوم و فرزندوں کو حقیقی قوم پرستی کیطرف راغب کیا ہے۔

ریاستی و تاریخی ظلم و جبر نے باشعور فرزندوں کو جدید سائنسی اسٹرکچر و تنظیمی سیاست کی اہمیت و افادیت سے آگاہ ہونے کا شعور دیا۔ اس تاریخی جہد نے تنظیموں میں اسٹرکچر و قابلیت کی بنیاد پر جہد میں ذمہ داریوں کی بنیاد رکھی۔ جو جتنا ذہین و قابل ہو اسکی قومی ذمہ داریاں زیادہ ہونگی۔ جس کو قومی شعور نے جہد کی جانب زیادہ گامزن کیا ہو، وہی نوجوان قربان ہو کر قومی فرض انجام دیں تاکہ دشمن کےناپاک ارادوں کو نیست و نابود کیا جاسکے۔ آج بلوچ قوم کی سرخیل رہنماء اور ایک تنظیم کی اہم ذمہ داروں کے خلاف قابض و سامراجی قوتوں کے غیر انسانی حملے میں شہادتوں کے باوجود تنظیم کو نقصان دینے میں ناکام رہی ہے کیونکہ تنظیمی اسٹرکچر ایسی ہوتی ہے جو بڑی سے بڑی بوجھ اٹھانے کی سکت رکھتی ہے۔ آج غاصب قوتوں کے اس شدید وار کے باوجود امید روشن ہیں کیونکہ تنظیمی کمانڈ اس خلاء کو پر کرنے کیلیے حرکت میں آئے گی۔ استاد اسلم بلوچ کی بے شمار کارنامے ہیں جن پر فخر کیا جاسکتا ہے لیکن میری نظر میں انکی سب سے بڑی و دیر پا و تاریخی کامیابی قابض سے بر سرپیکار تنظیم کو سائنسی بنیادوں پر تنظیمی اسٹرکچر کو عملی طور پر رائج کرکے ایک آئنی پنجہ دشمن کے منہ پر مارتے رہیں گے۔

تنظیم و قیادت قومی جہد کی تاریخ میں اہم ستون ہوتی ہیں۔ اعلیٰ قیادت کی سیکورٹی بریچ پر غور ہونا چاہیئے، قیادت کی حفاظت تنظیم کی ذمہ داری ہوتی ہے، پالیسیوں کا ازسرء نو جائزہ لیکر کمزوری اور کوتاہیوں کو دور کرنے کیلیے مزید ہوشیار ہوکر مظبوط حفاظتی پالیسیاں ترتیب دی جائیں تاکہ دشمن اور اسکی پالیسیوں کو کاونٹر کیا جاسکے۔ شہداء کی آرمانوں کو پورا کرنے کیلئے جہد کو کامیاب بنانے کیلیے مشترکہ و منظم جہد کی راہ اپنائی جائے۔