فلسفہ انقلاب – میرک بلوچ

488

فلسفہ انقلاب

میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

وطن عزیز بلوچستان اور اسکے غیور فرزند بلوچ 1839 سے بیرونی حملہ آوروں اور قبضہ گیروں کے فریب شکنجے میں ہیں۔

فرزندانِ زمین مادرِگل زمین کی آزادی کیلئے جاں گسل قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔ ان لازوال قربانیوں کے بدولت بلوچ قوم میں جذبہ حریت کبھی بھی سرد نہیں ہوا ۔ مختلف وقتوں میں آزادی کی تحریک اپنے حالات کے مطابق جاری رہی۔ برطانوی استعمار کے بعد غیر فطری ریاست نے 1948ء میں جبری الحاق کے ذریعے گل زمین پر قبضہ کرکے بلوچ قوم کو سازشوں کے تحت پسماندگی اور غربت و افلاس میں مبتلا کرکے اسے ہر طرح سے دست نگر بنانے کی ظالمانہ کوشش کی تاکہ بلوچ قوم کی قوت مزاحمت کا خاتمہ کرکے اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تاریکی میں ڈبودے۔ اس کے تشخص کو مجروح کرکے اسے دوسری قوموں اور نسلوں میں مدغم کرکے اسکے وسائل کا بلاشرکت غیرے استحصال کرے۔ مگر بلوچ قوم کی تاریخی جدوجہد نے اس کے یہ سارے عزائم کو اب تک ناکام بناکر یہ ثابت کردیا ہے کہ گل زمین اور اسکے فرزند نرم چارہ نہیں بلکہ لوہے سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ بلوچ قومی آزادی کی تحریک انقلابی تحریک ہے۔ انقلابی عوامل ہر خطے میں اپنے اپنے حالات کے تحت ظہور پذیر ہوتے ۔ ہر خطے کے اپنے جدگانہ حالات کے ساتھ ساتھ اپنے مزاج اور اپنے امتیازات ہوتے ہیں۔ گو کہ انقلابی عوامل و عناصر ہر جگہ الگ ہوتے ہیں لیکن انقلابی تحریکیں ہر خطے کے رونما ہونے والے واقعات سے سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش لازم کرتے ہیں۔ آیئے ذیل میں دنیا میں رونما ہونے والے مختلف ممالک کے انقلابات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

افغان ثور انقلاب 1979ء

بیسوی صدی کو بلاشک انقلابی صدی کہا جاتا ہے، معاشرتی، معاشی اور سماجی و سیاسی انقلابات کے علاوہ صدی سائنسی انقلابات کی بھی صدی رہی ہے۔ غرض یہ کہ زندگی کے ہر شعبے میں جو حیرت انگیز ترقی ہوئی اس کا طرہ امتیاز اسی صدی کے سر جاتا ہے ۔ افغان ثور انقلاب بنیادی طور پر طبقاتی انقلاب تھا ۔ اس انقلاب نے سرد جنگ کو بھی بامِ عروج تک پہنچا دیا تھا۔ چونکہ افغان انقلاب ایک ہمہ گیر سطع پر تھی لیکن ردِانقلابی طاقتوں نے اس کو اپنے اور مستحکم ہونے کا موقع نہیں دیا ۔ اسکی کی سب سے بڑی وجہ افغان معاشرے کا ڈھانچہ تھا جو فرسودہ قبائلی اور نیم جاگیردارانہ بنیادوں پر استوار تھا ۔ جسکی وجہ سے اس معاشرے میں کٹر بنیاد پرست ملاؤں اور قبائلی ملکوں کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ اس تمام صورتحال کا فائدہ اٹھائے ہوئے سامراجی طاقتوں نے اپنے بے پناہ وسائل کے ساتھ انقلابِ افغانستان پر یلغار کردی جس سے بلا آخر 1989،90ء تک انقلاب افغان تمام تر خشت و خون کے بعد ناکامی سے دوچار ہوا اور رجعتی عناصر نے اقتدار پر قبضہ کرکے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ آج افغانستان گوکہ رجعتی عناصر کے تصرف میں نہیں ہے۔ مگر استحکام سے کوسوں دور ہے اور نئی گریٹ گیم کا میدان خارزار ہے۔

انقلابِ نِکاراگوا (Nicaragua)1979

نکراگوا یا نکاراگوا سینٹرل امریکہ کا چھوٹا ملک ہے، اس میں بھی طبقاتی اور جدید نوآبادیات کے خلاف مارکسٹ بنیادوں پر 1979ء میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا۔ جو کہ ایک طویل منظم گوریلہ جنگ کے ذریعے ممکن ہوئی، یہ ملک بھی اپنے طفیلی حکمرانوں کی بدولت پسماندگی اور غربت سے تباہ و برباد تھا۔ اس ملک میں گوریلہ جنگ کی نگرانی ایک مشترکہ ماس پارٹی نے کی اور بالاآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئے، چونکہ اس ملک کے وسائل محدود تھے ۔ لہٰذا انقلاب کے بعد اس کی تعمیر و ترقی کا انحصار سوویت یونین اور دوسرے سوشلسٹ ممالک کی امداد پر تھا۔ چونکہ اس ملک میں ذرائع پیداوار پر انقلاب سے قبل سامراجی طفیلی حکمرانوں کا تصرف تھا اور اس وقت اس ملک کے حکمرانوں کو سامراجی ممالک اقتصادی امداد دیتے تھے اس لئے انقلاب کے بعد اس ملک میں بھی اقتصادی پابندیوں کا سامنا رہا۔ 1990ء کی دھائی کے بعد جب سوشلسٹ بلاک کا خاتمہ ہوا تو آہستہ آہستہ اس ملک میں تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں اور نکاراگوا آج پھر سے عدم استحکام کا شکار ضرور ہے لیکن افغانستان کی طرح برباد و بدنصیب نہیں ہے ۔ کیونکہ اب تک وہاں پر جنرل الیکشن کے زریعے تواتر کے ساتھ منتخب نمائندہ پارٹی موجود ہے۔

انقلابِ ایران 1978،79ء

ایران میں ظالمانہ پہلوی بادشاہت نے نہ صرف ایرانی عوام کا جینادو بھر کردیا تھا بلکہ اس پورے خطے میں ایران پولیس مین کا کردار بھی ادا کرتا تھا۔ جو اپنے پڑوسی ملکوں میں مداخلت اپنا حق سمجھتا تھا۔ 1973ء میں بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو کچلنے میں ایران نے قبضہ گیر ریاست کے ساتھ ملکر ظالمانہ کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ ظفاری تحریک کے خلاف بھی اومان کے ساتھ ملکر سازشیں کی اور مظلوم فلسطینوں کے خلاف بھی اسرائیل کا مکمل ساتھ دیا۔ ایران کی سب سے اہم انقلابی پارٹی” تودہ پارٹی ” تھی جو مارکسی تعلیمات کی بنیادوں پر جدوجہد کررہی تھی۔ تودہ پارٹی کے رہنما نورالدین کیا نوری تھے ۔ جو خود ایک بلند پائے کے ادیب و دانشور تھے۔ تودہ پارٹی نے 1978 کے انقلاب کی قیادت ضرور کی مگر انقلاب کو مذہبی نعروں کے ذریعے پروان دیا۔ جسکی وجہ سے کٹر رجعتی عناصر نے شاہ کے بعد ایرانی انقلاب کو دھکیل کر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور چُن چُن کر تودہ پارٹی سے وابسطہ رہنماؤں اور کارکنوں کو ختم کردیا۔ اس کے علاوہ مظلوم و محکوم قوموں جیسا کے بلوچ اور کردوں پر بھی عرصہ حیات تنگ کردیا۔ ایران میں ردِانقلاب ہوا آج بھی ایران کے اقتدار اعلیٰ پر ان ہی عناصر کا قبضہ ہے اور مظلوم بلوچ و کردوں کے وطن کا ایک کثیر حصہ ایران کے قبضہ میں ہے۔

مندرجہ بالا انقلابات نے ہر حوالے سے تمام دنیا کو متاثر ضرور کیا مگر بعض غلطیوں کی وجہ سے یہ انقلابات کسی نہ کسی صورت میں ناکامی سے دوچار ہوئے ۔ جن ممالک کے انقلابات کا ذکر اوپر مختصر بیان ہوئے وہ سب کلاس اسٹرگل تھے چونکہ یہ ممالک براہ راست کسی ملک کے قبضہ میں نہیں تھے ۔ لیکن اپنے پروردہ حکمرانوں کے بدولت جدید نوآبادیات تھے۔ جہاں کی وطن پرست پارٹیوں نے جدید نوآبادیات کے خلاف انقلابی جدوجہد کی اور اپنے اپنے ملکوں میں انقلاب برپا کئے۔

گذشتہ صدی میں رونما ہونے والے انقلابات نتائج اور اہمیت کے اعتبار سے بھی دیرپا رہے ہیں ۔ انقلاب کسی وقتی ابھار کا نام نہیں ہوتا اور نہ ہی بغیر کسی تیاری سے واقع ہوتا ہے بلکہ تغیروتبدیلی کے عوامل ٹھوس بنیادوں پر ہی استوار ہوتے ہیں ۔ اس کی اساس ہی جدلیات میں پیوستہ ہوتے ہیں اور وقت و حالات سے تصادمی عناصر باہم مربوط ہوکر کیفیتی مضمرات کو متعین کرتے ہیں۔ اس کی اہم بنیاد پیداواری ذرائع اور پیداواری رشتوں کا سماج میں مذید آگے کی طرف بڑھنے پوری قوت اور اسباب کی عدم توازن سے ظاہر ہوکر نئی شکل کا تقاضہ کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ جب سکڑ پن مذید تنگ اور نا برابر ہوتو انقلابی حالات پیدا ہونے لگتے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان حالات کو سمجھنے کیلئے مستحکم جمعیت موجود ہو ورنہ انقلابی حالات کی موجودگی انقلاب کا ذریعہ نہیں بن پاتی۔ کیونکہ ردِانقلابی قوتیں بھی سماج میں موجود ہوتی ہیں اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی بنیادی اقدامات کے بغیر انقلاب کا ظہور ناممکن ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ انارکی یا پھر فرسودہ نظام میں مذید پیوند کاری کرکے جزوقتی اقدامات کا سبب بن جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ بہت سی جگہ یا خطوں میں انقلابی حالات کی موجودگی کے باوجود انقلاب برپا نہیں ہوسکے یا انقلاب نہیں آسکا اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ عناصر موجود نہیں تھے جو انقلاب کو عوام کے تمام پرتوں تک لاتے۔

کسی بھی انقلاب کا تیاری کے بغیر کامیابی سے ہمکنار ہونا ناممکن ہے، نظم و ضبط ،تنظیم کاری عوامی اداروں کی تشکیل ، دانشوروں، طلباء، مزدور، کسان یا محنت کش تنظیموں کی موجودگی اور خاص طور پر اکثریتی عوام کی شمولیت اور شعور کے بغیر انقلاب برپا کرنا نہ صرف ناممکن ہے بلکہ چند عناصر کو جمع کرکے انقلاب کا نام دینا اورمہم جوئی کرنا تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ایسے خودساختہ اور خواہشات پر مبنی عمل سے ریاستی طاقتورمشینری کو عوام پر قہروغضب کو ناصرف دعوت دینے کے مترادف ہوتاہے بلکہ عوام میں خوف و مایوسی کا بھی ذریعہ بنتا ہے جسکی وجہ سے عوام تحریک سے کٹ کر بیگانہ ہوجاتا ہے اور بعض اوقات مخالفت پر اتر آتا ہے اور اضطراب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

دنیا بھرمیں جو کامیاب انقلابات برپا ہوئے اسکی وجہ قائدین کا پختہ ویژن، عوامی امنگوں و خواہشات پر گہری نظر، وقت و حالات کا ادراک رکھتے ہوئے موثر انداز سے ایک منظم عوامی جماعت قیادت، اداروں کی موثر موجودگی، محنت کش طبقات، دانشوروں، طلبا،خواتین اور جملہ تمام عوامی پرتوں کی شعوری شمولیت اور خاص طور پر اکثریتی عوام میں مضبوط جڑیں اور انقلابی دستوں یا تنظیموں کا عوام سے زبردست رابطے و تعلق اگر جملہ تمام چیزیں موجود نہ ہوں تو انقلابی حالات کی موجودگی کے باوجود انقلاب برپا نہیں کیا جاسکتا بلکہ انتشار ناکامی مقدر بن کر اضطراب و مایوسی کا پھیلنا یقینی بن جاتا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔