شہید واھگ و وشدل، انسانی آزادی کے دو علمبردار
تحریر: ریاست خان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کہا جاتا ہے کہ انسانی فطرت کے بناوٹ و انسانی خیالات خواہ وہ منفی ہوں یا مثبت کی آبیاری میں معاشراتی حالات ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، مقصد یہ کہ انسانی فطرت، رویے و خیالات اس کے ارد گرد و قریب و جوار میں پائے جانے والے ماحولیاتی حالات کے محتاج ہوتے ہیں، انسان وہی سب کچھ لیئے چلتا ہے، جو وہ معاشرے کو دیکھ کر سیکھتا ہے، مثلاً ایک روشن خیال و ترقی پسند معاشرے سے پرورش لینے والے افراد عموماً ترقی دوست ہوتے ہیں، جبکہ کسی قدامت پسند معاشرے سے تعلق رکھنے والے افراد کے رویے عموماً ترقی و تبدیلی مخالف ہوتے ہیں۔.
ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا، کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو معاشرے کے بنائے منفی اصولوں کو رد کر دیتے ہیں، جو سماج کو درپیش مسائل کو معاشرے کی نظروں سے دیکھ کر فیصلہ لینے کے بجائے انہیں شعور کے ترازو میں تول کے صحیح و غلط کے بیچ تمیز کرنے کا شیوہ اپناتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اعلٰی اور اجلاف کے بیچ کھڑی دیوار کو گرانے کی ہمت کر بیٹھتے ہیں، جو اندھیری راتوں میں ستاروں کی مانند روشنیاں بکھیرتے ہیں اور دنیا کو اپنی موجودگی سے مستفید کراتی ہیں۔ دراصل یہ وہ لوگ ہیں جن کے بدولت معاشرے ترقی کے منازل طے کرتی ہیں، تہذیبیں زوال سے اروج کو سفر کرتی ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو شعور پہ دسترس حاصل کر چکے ہوتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کی مزاحمت نے فرانس اور امریکہ میں قدیم سماجی اقدار کو مٹی میں ملیامیٹ کر دیا اور روشن خیالی کےنظریے کو عملاً قانونی شکل میں نافذ کیا، جنہوں نے ویتنام میں دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت کو لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کر دیا، اور جن کی لازاول قربانیوں کے بدولت دنیا نے روس میں اقتدار کو اعلٰی سے ادنٰی طبقے تک کی منتقلی کا نظارہ دیکھا۔
بلوچوں کا سماج جو اس وقت اپنی تاریخ کے ایک انتہائی اہم موڑ سے گذر رہا ہے، جہاں اسے ایک طرف بیرونی جارحیت کا سامنا ہے، جو بلوچ سماج کے اندر موجود محدود جمہوری اقدار کے خاتمے کے درپے ہے تو وہیں دوسری طرف اس جاریت کے چلتے سماج کے اندر ایک اجتماعی خاموشی و بےحسی کا دور دورا ہے، جہاں صدیوں کی غلامی نے لوگوں کی زبانوں پر تالے رکھ دیئے ہیں اور ان کی تخلیخی صلاحتیوں پر پردے ڈال دیئے ہیں، جو ان کی سوچ کو ان کی ذات تک محدود کرنے کا سبب بنا ہے۔ پر ان تمام کے باوجود ایک چیز جو قابل ستائش ہے وہ یہ کہ اگر بلوچ سماج میں ایک طرف ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے جارحیت و قبضہ گیریت کے آگے اپنے سر جکھا لیئے ہیں، تو وہیں تبدیلی و مزاحمتی سوچ سے سرشار کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی پرتوں میں جمی بے حسی کے زنگ کو اپنے گرم لہو سے دھو کر صاف کر رہے ہیں۔ جن کی شہادت اس کے جمود کو توڑ کر اسے بہنے میں مدد دے رہی ہے۔
انہی باشعور و باعقل انسانوں میں شمار دو نام واھگ اور وشدل بلوچ کے ہیں، جو بلوچوں کے قبائلی و مذہبی سماج میں تغیر و تبدیلی کے علمبرداران کے قبیل سے منسلک ہوئے اور سماجی تبدیلی و قومی آزادی کے اسی جہدوجہد کو آگے لے کر جانے میں اپنی زندگیوں کا ایک ایک لمحہ وار دیا۔
ہوشاب کے دو روایتی ذگری مذہبی گھرانوں میں جنم لینے والے واھگ و وشدل نے اپنے باپ دادؤں کی طرح اپنی زندگیوں کے فیصلے اپنے مذہبی پیشوا کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا اور سماج میں فرد کے مساوی حقوق کی چل رہی جدوجہد میں شامل ہو گئے، ایک ایسے سماج کی جدوجہد جہاں ہر ایک کے حقوق مساوی ہوں، جہاں ہر ایک کو اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی ہو، ایک آزاد بلوچ سماج کی جدوجہد، آزاد بلوچستان کی جدوجہد۔
یوں تو ہر روز لوگ اس جہاں فانی سے رخصت ہوتے ہیں، پر صرف کچھ ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو جاتے جاتے اپنی شخصیت منوا کر جاتے ہیں، جنہیں بعد از مرگ شہید کہہ کر پکارا جاتا ہے اور جن کی شہادت نیم زندہ اشخاص میں اپنی زندگی کو کسی مقصد کے پابند کرنے کی جستجو پیدا کر دیتی ہے اور ان کے کمزور اعتماد میں نئی تحاریک پھونک دیتی ہے۔
شہید واھگ اور وشدل جان ایسی ہی شخصیت کے مالک انسان تھے کہ جنہوں نے لوگوں کو ظالم کے خلاف ظالمانہ رویہ اختیار کرنے کی ترغیب دی اور ظلم کے خلاف بول اٹھنے کی تاکید کی۔
عام طور پر جب لوگ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو انہیں ہر بڑھتے قدم کے ساتھ نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، گھر بار، بیوی، بچے، معاشی مستقبل وغیرہ وغیرہ لیکن واھگ اور وشدل بلوچ عام انسان نہیں تھے اور نہ ہی ان کی سوچ عام انسانوں سے میل کھاتی تھی۔ زندگی سے ان کے خواہشات کسی عام نوجوان کے خواہشات کے بلکل برعکس تھے، ان کے سامنے موجود چیلنجز کی نوعیت دیگر کو پیش آنے والے چیلنجز سے مختلف تھے. وہ سماج کے اندر ضرور جینا چاہتے تھے مگر سماج کو بدل کر اور وہ اپنی ساعت آخر تک اپنے انہی اصولوں پر ڈٹے رہے۔
آج واھگ اور وشدل جسمانی طور پر ہمارے بیچ موجود نہیں، انصاف و آزادی کے دشمنوں نے انہیں ہم سے چھین لیا ہے لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ہوائیں قید نہیں کی جا سکتیں اور نہ ہی سورج کی روشنی کو کبھی پابند سلاسل کیا جا سکا ہے، تو بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ انسانی سوچ و فکر کو کوئی مائی کا لال اپنی بندوقوں کی گھن گرج سے خاموش کر دے۔
واھگ اور وشدل بلوچ جسمانی طور پر وجود نہیں رکھتے، پر ان کے خیالات آزاد ہیں جو بلوچستان کے بلندو بالا پہاڑوں میں بیٹھے آزادی و مساوات کے علمبرداروں سمیت دنیا کے ہر کونے میں ظالموں سے نبردآزما مظلموں کو تحریک دینے کا کام سرانجام دی رہی ہیں۔
ہزار مشکلات، مسائل و تکالیف میں گھرے رہنے کے باوجود بلوچ واقعی میں ایک خوش قسمت قوم ہے، جس کی خشک و بنجر زمیں پر قدم قدم واھگ اور وشدل جیسے ہزاروں فرزندان مادر آسودہ خاک ہیں، جن کے مزاروں پر لہلہاتے آزاد بلوچستان کے پرچم بلوچوں کو دنیا کے سامنے اپنا سینہ چوڑا و سر بلند کر کے یہ کہنے کا جواز میسر کراتی ہیں کہ ہاں ہم بھی ایک زندہ قوم ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔