شہید رازق، ازل اور رئیس کے نام
سنگت مرید بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پتہ نہیں کہاں سے ابتداء کروں، کہاں سے اختتام دل چاہتا ہے۔ شہید رازق رازی عرف جلال جان کے آخری شعر سے ابتداء کرتا ہوں، جنہوں نے شہید ہونے سے ایک گھنٹہ قبل سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا۔
بوئے گل ، جوہر سبزہ زار الوداع.
الوداع ، الودع اے بہار الوداع.
ہست کے دائروں میں نہ شائد ملیں.
وائے دل، وائے جان اشکبار الوداع.
روشنی ، رنگ ، برکھا تمہارا نصیب.
خاک کے ہوگئے خاکسار الوداع.
تجھ سے قائم رہیں خواب کے سلسلے.
تشنگی کی زمیں کوئے یار الوداع.
تیرے قدموں تلے آسمان وفا.
عاشق گل زمیں، جانثار الوداع.
راستے بل ہی کھاتے رہینگے سدا.ا
ے سفر در سفر ریگزار الوداع.
لکھنے سے پہلے الفاظ بھی کانپ رہے ہیں کہ کچھ غلطی سرزد نہ ہو۔ جنہوں نے بہادری کے ساتھ تاریخ رقم کرلی ہے۔ آج شہید رازق رازی عرف جلال جان، ازل خان عرف ڈاڈا اور رئیس عرف سنگت وسیم نے جس بہادری کا مظاہرہ کیا وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیگی۔ تاریخ ہمیشہ اِن بہادر سپوتوں کو یاد کریگی۔
اگر باریک بینی سے غور کیا جائے چینی قونصلیٹ پر حملہ ایک گیم چینجر نفسیاتی حملہ ہے۔ امریکن سابقہ کرنل لارنس بی ایل اے مجید بریگیڈ کے کراچی میں واقع چینی قونصل خانے حملے پر اپنی آراء پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ “ایک تو حملہ چھوٹے پیمانے پر کیا گیا، یہ حملہ ویتنام کے Tet offensiveجیسا ہے. اسکے گہرے تزویراتی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہونگے، دوسرا وہ اپنے ایک اور تجزیاتی تحریر میں یہ لکھتا ہے کہ یہ حملہ بلوچ قوم نے بطور گیم جینجنگ کارڈ کے طور پر استعمال کیا ہے۔
اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چینی قونصلیٹ پر حملہ ایک کامیاب حملہ ہے۔ کامیاب حملے سے مراد یہ نہیں کہ دو پولیس اہلکار ہلاک اور ایک سیکورٹی گارڈ شدید زخمی ہوا۔ بلکہ اس حملے کو جتنی پذیرائی ملی وہ کسی انسان سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
عمران خان اور شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ہمارے سیکورٹی نے اس حملے کو ناکام بنا دیا ہے۔ اگر یہ حملہ ناکام ہوتا تو پاکستانی میڈیا کوریج نہ دیتا کیونکہ پاکستانی میڈیا کو مجبوراً کوریج دینا پڑا کیونکہ یہ حملہ پاکستان چین اور سعودی عرب کےلیے ایک بہت بڑا خطرناک حملہ تھا۔
پاکستانی میڈیا کی اس حملے کے فوراً بعد تمام میڈیا چینلز اور بالخصوص عالمی میڈیا چینلز بی بی سی ورلڈ، سی این این، الجزیرہ سمیت دیگر چینلز نے کوریج دی۔ آیا اس حملے کا مقصد کیا تھا۔ اور اس حملے کے کیا نتائج مرتب ہونگے۔
اس حملے کا مقصد چین، پاکستان، سعودی عرب سمیت پوری دنیا کو یہ بتانا تھا کہ بلوچ سرمچار اپنی سرزمین کے دفاع کےلیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ چین، سعودی عرب کو یہ بتانا تھا کہ بلوچ سرزمین ایک جنگ زدہ خطہ ہے اور یہاں آپ جیسے ممالک کاروبار نہیں کرسکتے۔
اگر آج فدائین وطن رازق بلوچ ازل بلوچ اور سنگت وسیم بلوچ کراچی جیسے سخت اور خطرناک شہر یہاں پاکستان اور دنیا کے مختلف انٹیلیجنس کام کررہے ہیں اور حساس نوگو ایریا کلفٹن ڈیفنس جیسے خطرناک ایریا جہاں ہر جگے پر کیمرے لگے ہوئے ہیں، پولیس، رینجرز، انٹیلیجنس کے لوگ ہر وقت یہاں موجود ہوتے ہیں اور سیکورٹی انتہائی سخت ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی تین فدائین حملہ آور باآسانی اپنے حدف پر پہنچتے ہیں اور حملے کو کامیاب بناتے ہیں۔
اگر آج یہ تینوں فدائین کراچی چینی قونصلیٹ پر حملہ کرسکتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے گوادر، ریکوڈک، سیندک پروجیکٹ پر بآسانی حملہ کرسکتے ہیں کیونکہ اگر ایک شیر دوسرے علاقے میں جاکر اپنے ہدف پر پہنچ سکتا ہے تو وہ اپنے علاقے میں دشمن کو بآسانی شکست دے سکتا ہے۔ اس لیے آج دشمن نفسیاتی بن چکا ہے۔
اس حملے کے بعد پاکستانی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس حملے کے ماسٹر مائینڈ استاد اسلم بلوچ ہیں اور استاد اسلم بلوچ انڈیا کے شہر دہلی میں زیر علاج ہیں۔ حملے کے بعد بی ایل اے کے کمانڈر واجہ استاد اسلم بلوچ نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ میں آج بھی محاز پر موجود ہوں۔ لڑ رہا ہوں اور ہم آزاد پیدا ہوئے ہیں ہمارے پاس اختیار ہے کہ ہم جہاں بھی چاہیں جاسکتے ہیں۔
استاد کی یہ بات بہت اچھی لگی کہ اگر آج دشمن ہمیں شکست دے سکتا ہے، ہماری کمزوریوں کی وجہ سے۔ اس حملے کے دوران تین فدائین رازق جان، ازل جان اور سنگت وسیم جان کی تصویر سوشل میڈیا پر شئیر ہوتی ہے۔ اور اس کے بعد ویڈیو پیغام بھی سوشل میڈیا پر نشر ہوتی ہے۔
ویڈیو پیغام میں تینوں فدائین علم و شعور سے مکمل لیس اپنے پیغام کو انگلش زبان میں دے رہے ہوتے ہیں۔ کہ ہم بلوچ سرزمین کی دفاع کےلیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور چین پاکستان کو بتانا چاہتے ہیں کہ بلوچستان ایک جنگ زدہ خطہ ہے اور آپ یہاں کاروبار نہیں کرسکتے۔
غور کرنے کی بات ہے کہ حملے سے ایک دن پہلے چئیرمین واجہ بشیرزیب بلوچ کا ویڈیو پیغام نشر ہوتا ہے۔ ویڈیو پیغام میں چئیرمین کہتا ہے آج بلوچ قومی تحریک انتہائی خطرناک حالات سے گذر رہی ہے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ دشمن کو شکست دینا ہے تو شکست دینے کےلیے ہم سب کو یکجا ہونا ہے۔ اور بلوچ قومی تحریک کو کامیابی کی جانب رواں دواں کرنا ہے۔
حملے کے بعد حساس اداروں کی ایک بہت بڑی ٹیم تشکیل دی گئی ہے، سیکورٹی کے حوالے سے کراچی، اندرون سندھ۔، پنجاب اور بالخصوص بلوچستان میں سیکورٹی بہت سخت کردی گئی ہے۔ سی پیک کے روٹ پر سیکورٹی مزید تعینات کی جائی گی تاکہ آنے والے وقتوں میں اس طرح کے کامیاب حملے درپیش نہ ہوں۔
پاکستانی گورنمنٹ کا کہنا ہے کہ جتنے بھی بلوچ، چاہے وہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، گورنمنٹ یا پرائیوٹ جاب کررہے ہیں اٌن کے تمام Documents پر نظر رکھی جائے گی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دشمن کِس طرح نفسیاتی مریض بن چکا ہے۔
آج پاکستان، چین یا دنیا کا کوئی بھی ملک اِن تینوں فدائین کو دہشت گرد قرار دیں یا نہ دیں لیکن آج ہمیں فخر ہے اِن تینوں فدائین پر جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ کیئے بغیر اپنی سرزمین و قوم کی بقاء کےلیے اپنے قیمتی جانوں کا نذارانہ پیش کیا۔
آج بلوچ قوم کے سرمچار دہشت گرد نہیں ہیں، چاہے دنیا جو بھی بولے۔ اِن فدائین سرمچاروں نے وہ کام کرکے دکھایا کسی کے سوچ میں بھی نہیں تھا کہ اس طرح کا حملہ ہوسکتا ہے۔
بقول بھگت سنگھ بہروں کو دھماکوں کی آواز سنائی دیتی ہے اور واقعی آج بہروں کو دھماکوں کی آواز سنائی دے رہی ہے، آج دنیا مجبوراً بلوچ قومی تحریک کے بارے میں بحث و مباحثے کررہی ہے، آخر ان حملہ آوروں کا مقصد کیا تھا۔
آج اِن تینوں فدائین نے اپنی اپنی زمہ داری ایمانداری و مخلصی کے ساتھ سرانجام دیا۔ تاریخ ہمیشہ اِن بہادر فرزندوں کو سنہرے الفاظ میں یاد کریگی۔
آج ہماری زمہ داری ہے کہ ہم اپنی بساط کے مطابق قومی تحریک میں اپنی اپنی زمہ داری ایمانداری و مخلصی کے ساتھ سرانجام دیں۔ اور اپنی بساط کے مطابق جدوجہد میں پیش پیش ہوں۔
آج میں پختہ ایمان کے ساتھ کہتا ہوں شہید رازق جان، شہید وسیم جان، شہید رئیس جان ہر بلوچ کے دل میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ و جاوید رہیں گے تاکہ بلوچ اپنی منزلِ مقصود تک نہ پہنچیں۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔