شہید جلال جان میرا رہبر
تحریر۔ نود شنز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں، جو بہت ہی کم مدت میں بہت کچھ کر جاتے ہیں،، کم وقت میں، بڑی تبدیلوں کا باعث بنتے ہیں۔
شہید جلال تعریف کا محتاج نہیں ہر کوئی سنگت کے کردار سے واقف ہے ایک عظیم انسان جسے ہر حوالے سے اگر دیکھا جاہے تو ہم جلال کو ایک مہروان پاتے ہیں۔
َ
میں جلال جان کو رہبر اس لیئے کہونگا کیونکہ جلال جان نے مجھ جیسے کام چور عملی جہد سے دور اور کتابی نمونے کو خاک سے اٹھا کر عملی جہدوجہد پر گامزن کیا۔ َ
شہید جلال جان یقینا میرے تعریف کا محتاج نہیں ہے، میرا کردار اتنا نہیں اور میں اس وقت اس قابل نہیں کہ جلال جان کے زندگی، قربانی اور جدوجہد پر نقطہ چینی کروں ۔
شہید جلال جان سے میں پہلی بار سوشل میڈیاپر انکے نام سے منسوب تحریروں کی وجہ سے واقف ہوا، پھر وقت گذرتا گیا آخر سنگت سے کسی طرح سے حال احوال شروع ہوا مجھے یاد ہے جب سنگت سے پہلا حال ہونے جا رہا تھا تو مجھے عجیب احساس ہوا کیونکہ اس سے پہلے میرا کبھی کسی ایسے سنگت سے رابطہ نہیں رہا، جو مسلح محاز پر برسرِپیِکار ہو۔
میرا جلال سے مختلف موضوعات پر حال ہوا
سنگت کا مہروان آواز آج بھی کانوں میں گونجتی ہے، جس نے مجھے ہر حوالے سے کنونس کیا میں ان سے سوالات کرتا اور وہ مجھے تسلی بخش جوابات دیتا اور بات ختم ہو جاتی۔
جلال جان مزاج سے شغلی تھے ہنسنا ہنسانا معمول کی بات تھی، َ ایک سنگت نے بتایا کہ شہید جلال جان کبھی غصہ بھی کرتا تھا مگر وہ اس بابت سنگتوں کو پہلے آگاہ کرتا رہتا کہ کبھی میرا سر گھوم جاتا ہے
اس دوران مینلں اپنے تصوراتی اور خیالی دنیا میں مگن رہا بہت کچھ سوچا اور ترتیب دیا بلوچ آزادی کی جدوجہد کو لیکر میں سنجیدہ ہوتا گیا۔
کچھ وقت بعد میں اپنے آبائی گاوں چلا گیا وہاں پر کچھ وقت بعد میسنجر پر میرا سنگت سے حال احوال ہوا کچھ کام مجھے کرنے کو کہا پھر سیکورٹی کا کہہ کر ٹال دیا۔
پھر وقت آیا میرے ایک سنگت نے بتایا کہ کامریڈ آیا ہے وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے تو میں نے خود کو معمول سے فارغ کیا اور کسی طرح سے متعلقہ جگہ پر گیا وہیں پر سنگت نے فون کیا اور میں انکی ہنسی مزاق سن سکتا تھا، خیر سنگت پہنچ گئے
ہم کچھ دور کھلی جگہ پر گئے وہاں پر جلال نے اپنے چہرے سے ماسک اتارا۔
ہم گھنٹوں تک وہیں پر بیھٹے رہے، جلال نے ہمیں بہت ہنسایا اور کبھی ہم سنجیدہ ہو کر بحث کرتے رہے، اور کچھ لمحے خاموشی کے گزرے وہاں میں نے بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کیا مجھے لگا یہ ابھی شروعات ہی تو ہے، آگے ہم کو ساتھ میں بہت سارا کام اور وقت گذارنا ہے مگر مجھے کیا معلوم کہ یہ ہم تینوں کا پہلا اور آخری ملاقات ہے۔
جلال جان جو کہ بلوچ سرڈگار کا ایک جانثار اور وطن زادہ تھا، جو اپنے سینکڑوں خواہشیں ضروریات اور ذاتی زندگی کو ترک کر چکا تھا اور گلزمین کیلئے شیدائی تھا اور اپنے گلزمین سے محبت اور بلوچ شہداء کے مشن اور لہو سے مخلصیت کا ثبوت اپنے لہو سے اس نے دیا۔
میں سنگت کا ایک ادنی سا شاگرد، مجھے فکر ہے میں ایک ایسے جہدکار، ایک ایسے شہید کا پیروکار ہوں جو تاریخ میں امر ہے اور اپنا لوہا منوا چکا ہے۔
کامریڈ جلال جان مجھے آپکی موجودگی کا احساس ہے، وتاخ میں، ان کوہساروں میں
یہ اور بات ہے کہ مجھے وقت سے بہت توقعات تھیں جو مکمل نہ ہو سکیں، َ وہ کہتے ہیں کہ دیر آیا درست آیا۔
24نومبر کی صبح میں نے وٹسپ کھولا تو کامریڈ کا الوداعی پیغام موصول ہوا، جسے میں پڑھنے کے بعد معمول کا سمجھ کر نظر انداز کرگیا َ
جس وقت آپ تینوں کامریڈ اپنےمقصد کی تکمیل کیلئے شہید ہوئے تو پہلے مجھے یقین نہیں ہوا کہ جلال جان اتنی جلدی کیسے؟ پھر اسَی سنگت نے مجھے وٹسپ پر کہا کامریڈ گیا، اس دوران جلال جان میرے خیالوں میں ظاہر ہوگیا، میری آنکھیں نم ہو گئیں ، غم کے ساتھ مجھے فکر بھی ہونے لگا کہ ہاں مین نے جلال کو دیکھا۔
اس پورے واقعے کے بعد جب میں نے وہ الوداعی شعر دوبارہ پڑھا تو ہر لفظ کی گہرائی میں چلا گیا، اسی شعر نے مجھے اندر سے بہت توڑا وہ جگہ جہاں پہ آپ نے رخصت اف کہا اور پھر ملنے کا کہہ کر چلے دیے ٰ وہاں سے اگر میرا گذر ہوتا تو میں تصور میں آپ کو اپنے ساتھ پاتا۔ َ بہت درد ہوتا ہے جب خیال کرتا ہوں، کہ میں اکیلا ہوں اب نہ آپ ہیں اور نہ ہی وہ سنگت
اب بس آپ کی یادیں اور آپ کا نظریہ فکر جو میرے ساتھ ہیں تاحیات رہینگے۔
کبھی جب اپنے ماضی میں پلٹ کر جانکھتا ہوں، میں خود کو ایک بے عمل اور نمائشی انسان پاتا ہوں، میں انتہائی نالائق انسان ہوں مجھ سے کسی کو کوئی توقع نہیں تھی، بشمول مجھ خود کو۔
آج مین مادرطن کے ان کوہساروں میں اپنے کندھے پر قومی توپک رکھ کر فخر سے گھومتا ہوں، آج میں بلوچ شہداء کے فکر و فلسفے پر گامزن ہوں۔
آپ یاد آوگے بہت آوگے خاص کر چاند راتوں میں جہاں میں اپنے لمہ دیار کی زیبائی کو قریب سے دیکھتا ہوں۔
شہید جلال میرے استاد، میں آپ کے سوچ کا آئینہ دار بن کر، اپنا جدوجہد جاری رکھونگاَ آپ ہیں میرے ساتھ آپکا فلسفہ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔