شورش زدہ خضدار، سرد مہری کا شکار
زَامُر زہری
دی بلوچستان پوسٹ
خضدار اس سرزمین کا وہ خطہ ہے، جو کبھی بانجھ نہیں رہی۔ ہر دور میں اس سرزمین کو بہادر جوانوں کے خون سے سیراب کیا گیا ہے۔ جہاں پورے بلوچستان میں اگرآزادی کی چاہ کی لہر اُٹھی ہے، تو اِس خطے سے ہوا چلی ہے۔ اور پورے بلوچستان میں نظریات پھیلتے رہے ہیں۔ اور اگر سامراج کبھی بھی ترسیدہ اور لرزیدہ رہا ہے تو اس خطے اور اس کے بہادر سپوتوں کی وجہ سےجوبِلَاخوف و خطر جوان مردی سے دشمن کا مقابلہ کرتے تھےاور کررہے ہیں۔ یہ صرف سرزمین کی چاہ ہے جو ایک چیونٹی کوبلا کے ہاتھی کا مقابلہ کرنے پہ مجبور کرلیتی ہے۔
میرے اس جستجو میں شامل غم ان اسیروں کاہے
جو بکھر گئے پر دشمن کے آگے جھکنے سے مکرگئے
خضدار کے حالات ہر دور میں شورش زدہ رہے ہیں، لیکن نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد حالات کافی بدل گئے، ہر طرف آزاد ی کے نعروں سے فِضاء گونج رہی تھی۔ جوان، بچے، بوڑھے ہر طبقہ فکر نے نظریات کو دل و جان سے بخیر کیا کیونکہ ہر طرف سے سامراج کے نقصانات کی خبریں گردش کررہی تھیں۔ مکران ،جھالاوان، ساراوان، بولان ہر طرف سامراج کیلئےاِس دلیر عوام نے مشکلات کے پہاڑکھڑے کردیئے تھے۔ کوئی آزادی کی بات کررہا تھا تو کوئی ریفرینڈم کی۔۔۔ کوئی حیران تھا تو کوئی شُغل سمجھ کے ہر چیز میں اپنا حصہ ڈال رہا تھا۔ اس بانٹ چھانٹ میں تو کوئی غیر سیاسی، تو کوئی نیم نظریات کا مالک تھا، کسی کا ان دونوں سے دور تک کا ماموں بھانجے کا رشتہ تک نہ تھا، لیکن صفِ اول میں شامل تھے اپنی شان بان کیلئے کہ کوئی مجھے سنے میں قلم بند ہوجاوُں، یا کسی ویڈیو میں کسی کی دید نظر میرے نایاب چہرے پر بھی پڑے، واقعی میں نایاب ہوگئے۔ ہر کوئی طوقِ غلامی سے چھٹکارا حاصل کر نے میں کار فرما تھا۔ لیکن اُنھیں پتا نہیں تھا کہ اس سفر میں اُن کے قدم نشان چھوڑرہے ہیں اورآگے جاکے نقصا نات سے جُھوجنا پڑ سکتا ہے۔
آزادی روئے زمین پر بسنے والے سب کا حَق ہے لیکن سامراج سے اپنی کھوئی ہوئی آزادی حاصل کرنے کیلئے درست منصوبہ بندی اور اُن کی طرف پیش رفت کرنی پڑتی ہے۔ لیکن ہم صرف اِن کے دعویدار کہلائے۔ شاید حالات کے بہاؤ میں بہہ گئے۔ نہ کوئی پختہ منصوبہ تھا اور نہ کچھ سمجھ سکے، وقتی طور پر کشتی اُنڈیلتا ہُواکنارے کی طرف مِحو رَقص تھا۔ شاید وہ ہماری آنکھوں کا جھول تھا۔
خضدار میں جب حالات طول پکڑچکے تھے، تو سامراج رسی کو اور ڈھیل دینے میں مصروف عمل تھا۔ جال لگائے بیٹھا ہوا شکار کا آخری دم تک انتظار کرنے میں لگا ہوا تھا اور لالچ بے پناہ بڑھ رہی تھی کہ سب کو مسمار کیا جائے، لیکن عوام سمجھنے سے قاصر رہی۔ ہمارے نیم مُردہ نظریات والے تو خیر پختہ نظریات والے بھی سمجھ نا سکے کہ سامراج سر جوڑکے کیا رَچانے جارہا ہے۔ کسی کے سر پہ جوں تک نہ رینگی، ہر ایک مصروفِ عمل تھا، اپنا ہی سَر گِرانے کو۔ ہر کوئی ایک دوسرے پر اندھا دُھند یقین کرچُکا تھا اور اپنی ہر ایک سرگرمی کا احوال کچاری میں بیٹھےاپنے ہم خیال دوستوں سے ذکر کرلیتا کہ آج یہ کارنامہ تشکیل دیا۔ آج یہاں سامراج کے کچھ پتے بکھیرےاور جلسوں میں ویڈیوز کرنا اور انٹرنیٹ پر اپلوڈ کرنا پورے خضدار کو ناگوار گزری۔ یہ عمل صرف غیر نظریاتی اور شُوبازجُھنڈ نے صرف دلی تسکین حاصل کرنے کیلئے کیا۔ نہ صرف اپنی موت کا سامان دُشمن کو فراہم کیا بلکہ اُن پختہ نظریات والے سنگتوں کو بھی ہم سے جُدا کیا۔
شروع میں وطن، نظریاتی دوستوں سے محبت اور آزادی کی چاہ ہر طبقہ فکر میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ حالات کے پیش نظر دھیمی پڑ گئی۔ بعد میں سامراج نے اپنے رسی کی ڈھیل کو کھینچنا شروع کیا تو سب کے چہرے عیاں ہوگئے۔ اور تواور بندوق ہمارے ہی کندھے پر رکھ کر چلایا گیا۔ شفیق، ذکریااور زیب جیسے نامراد لوگوں کو سامراج نے پیسے اور آسائشوں کا لالچ دے کر باور کرایا کہ تم پر کوئی آنچ نہیں آنے دونگا۔ اور اُنھیں اسلام کے نام پر ورغلایا کہ یہ سارے ہندو اور کمیونسٹ لابی کے پیروکار ہیں جو اسلام کے قلعے کو توڑنے کی سازشیں کررہے ہیں۔
خیر ہواؤں کا کوئی بھروسہ نہیں کرسکتا، شروع میں ہوائیں کپتان کا طوفان سے مقابلہ کرنے میں ساتھ دے رہی تھیں۔ لیکن بعد میں ہواؤں کارُخ بدل گیا۔ شفیق نامُراد نے سامراج کی ادھوری جنگ کابیڑہ اٹھاکر پایہ تکمیل تک پہنچانے میں جُھٹ گیا۔ تصویروں اور ویڈیوز کی آدار پر ان نیم مریدہ نظریات والے دوستوں پر قہر برساکر اگلوالیتا۔ اور شک کی بنیاد پر کافی معصوموں کو زندہ درگور کر تا رہا۔ ہر طرف سے لاشوں کے گرنے کی خبریں چلتی رہی، کوئی مسخ شدہ ہے تو کوئی اس نامُراد کے ہاتھوں اُٹھالیا گیا۔ لاشیں تواتُر سے گِرتی رہی، سرزمین کے چراغ گل ہوتے گئے۔ ہر طرف چیخ و پکار کا سما تھا، کوئی اپنے جِگر کے ٹکڑے کی لاش گود میں لیئےبوسہ دے رہا تھا، تو کوئی عمر بھر کیلئے مایوسی کا رونا رو رہی ہے۔ کسی کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی تو کوئی اس ڈر سے خاموش تھا کہ میرے ساتھ کچھ نہیں ہوااپنا خیر منا رہا تھا۔ گھرانہ ایک ہے لیکن، کہیں ماتم ابھی باقی، کہیں شادی کی شہنائی۔
لیکن حالات سے کسی کو انکاری نہ ہونا چاہئے، حالات ہواؤں سے بھی جلدی کروٹ بدل دیتے ہیں۔ ہیف تجھ پہ آج تیرا دیوار شریک رو رہا ہے اور تو خیر منا رہا ہے۔ کل کو رونے سے اچھا ہے کہ آج اُن زنگ آلود ہتھیاروں کو چِکڑ مار کے جنگ سے پہلے جنگ کی تیاری کی جائے۔
ان تمام تر واقعات اور مظالم کی تاب نالاتے ہوئے آخر کار اس جنگ نے دم توڑنا شروع کیا۔ وہ لوگ جو آزادی کی بات کرتے تھے اور والہانہ محبت تھا، کبھی اُنھیں پہاڑوں پہ بیٹھے اُن جوانوں سے جو اس قوم کی جنگ لڑرہے ہیں دم توڑ گئی اور اس حد تک دم توڑ چکی ہے کہ جب کبھی نظریاتی دوستوں کا ذکر چھڑ جائے تو منہ موڑلیتے ہیں، جیسے کسی گنہگار کا ذکرہوگیا ہو۔ اور وہ بھی ایک دور تھا جب خضدار کی سڑکوں پہ سامراج کے جھنڈے گراتے ہوئے دیکھتا تھا لیکن آج اُٹھانے والے بہت ملیں گے۔ کہاں گیا بلوچستا ن سے عہد وفا جس کی محفلوں میں قسمیں اُٹھایا کرتے تھے؟ اور کہاں گئی اُن دوستوں سے کیا ہوا وعدہ وفا جن کی تعریفوں کے گُن ہرمحفل میں گایا کرتے تھے کچھ تو لاج رکھ لیا ہوتا اُن قسموں اور وعدوں کا۔
خضدار میں تمام تر کارہ جوئی شفیق نامراد کی بدولت ہوا۔ جو از خود سامراج کا پالا ہوا چارہ ور سانپ تھا۔ جو صرف اور صرف آزادی کی سوچ کو ختم کرنے اور حالات کو بد سے بدترکرنے کیلئے لایا گیا تھا۔عوام شفیق کےکارناموں سے اتنے بیزار ہوگئے کہ کم عقلی میں اسی سامراج سے اُس کی شکایت کرنے لگے یہ جانتے ہوئے بھی کہ شفیق سامراج کا تنخواہ دار ہے۔ آخر کار سامراج نے دیکھا کہ بگڑے کام بن گئےاور باغیانہ ذہنیت کے مالک سارے نیست و نابود ہوچکے ہیں۔ اور عوام کے دلوں میں باغیو ں کےخلاف نفرتیں گھر کرچکی ہیں۔ اور رہی سہی جو نیم مردہ نظریات کےمالک تھے یہ کُشت و خون دیکھ کر اُن کی غیرت منجمد پڑ گئی اور اُنھوں نے اپنی حسرتوں کا گلا گھونٹ کردلوں کے قبرستان میں مدفن کردیا۔
اسی دوران سامراج نے نئی چال چلی کہ سانپ مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، ایک فوجی ریٹائرڈ کو اس دیار خستہ حال کی طرف کا کمانڈ (ڈی – سی) کی منصب دیا کہ سامراج سے محبت کی پرچیاں بانٹو۔ اس نے آتے ہی پولیس اور لیویز کے غیر تعینات جوانوں پر سختی کرنا شروع کردیا کہ اپنے ڈیوٹیوں پہ پابند رہیں۔ اور شفیق کے ساتھ بِلی ،چُوہے کا کھیل شروع کیا۔ حالانکہ یہ سب دکھاوا ہی تھا،لیکن خضدا ر کے ناسمجھ عوام کو بَھاگیا کہ (ڈی-سی) نے آتے ہی حالات کو معمول پر لے لایا۔ حالانکہ سارا کچھ ڈھیل دینے سے شفیق اور ڈی- سی تک سب کچھ (پری۔پَلانڈ) تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اتنا بھی ناسمجھ نہیں ہونا چاہیئے کہ کوئی تیرے ہی ہاتھوں تیرا گھر جلا ڈالے اُس سے پہلے تو حکم دہندہ کو جلا ڈال۔
“دشمن چاہے چیونٹی کی مانند ہو یا پھر ہاتھی کبھی بھی اُسے کمتر نہیں سمجھنا چاہیئے”
وجوہات ان سارے نقصانات کا صرف اور صرف ہماری بکھری ہوئی، نامکمل نظریات تھیں۔ اور عموماً دوسروں کو دیکھتے دیکھتے ہم اُن کے کام کی طرف راغب ہوجاتے ہیں اور اُس کام کو دل وجان سے لگانے کے دعوے کرتے ہیں، حالانکہ جس کے بارے میں ہماری سوچ بکھری ہوئی ہوتی ہے۔ جو آخر کار اُس پورے خطے کی نقصان کا باعث بنتا ہے۔ خاص کر اُن سچے موقف یافتہ نِڈر دوستوں کا جو ہم اور آپ کے مستقبل کی جنگ لڑرہے ہیں۔ خُدارانظریاتی سنگت بنے دکھاوے کیلئے تو سارا کنبہ ہے۔
نظریات سے ایک دوست کی سُنائی ہوئی بات یاد آگئی یہ اُس خطے کی بات ہے جو ہم اور آپ سے نظریاتی طور پر کافی بہتر ہے۔ کیونکہ اُن کا مطالعہ کافی چیزوں پرہے اور نظریات کا روح مطالعہ ہے۔ ” مکران کے ایریا میں ایک شخص کمانڈر جگّو کے نام سے مشہور تھا، جو دُشمن پر قہر بن کے ٹوٹتا تھا۔ لیکن اُس کی ایک کمزوری نِکلی کہ جہاں کہیں بھی سامراج کے مخبروں پہ حملہ کرلیتے تو وہاں سے کافی مقدار میں نشہ آور چیزیں ملتی۔ تو وہ اُنھیں عوام کوبیچ لیتا۔ جب ہائی کمانڈ کو پتا چلا کہ ہم اس عوام کی جنگ لڑرہے ہیں اور یہ کمانڈر اُنھیں ہی برباد کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ منع کیا گیا لیکن باز نہ آئے آخرکار پھر اُسے نکال دیا گیا۔ بعد میں اس کی تاب نہ لاتے ہوئے بجائے پچھتاؤے کے سامراج کے چرنو ں میں گر کر اُن کا سہولت کار بن گیااور کافی نظریاتی دوستوں کو نقصان پہنچایا- اور آخرمیں اُسی سامراج کے گولی کا شکار بنا۔
جنگی صلاحیتیں ان پڑھ، پڑھے لکھے سب میں ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ نظریاتی طور پرپڑھا لکھا بکھرتانہیں، ان پڑھ جلدی بکھرجاتا ہے۔ اور سارے راز افشاں کردیتا ہیں۔
نظریات کایہ تال میل ذرا دیکھو
کہ کچھ لوگ دوسروں کی گولی کا شکار
تو کچھ اپنی ہی بندوق اپنے سر پہ تان لیتے ہیں
ہمارے سامنے وطن کے درویشوں کی کافی مثالیں ہیں جو نظریات کی لاج رکھتے ہوئے اپنی گولی خود کو مار لیتے ہیں۔ اس عشق حقیقی کو کیا نام دیا جائے۔ اس میں تو کوئی دورائے نہیں وطن کی عشق میں مَرو یا مارو، وجہ صرف نظریات ہیں۔ کسی کی مضبوط ہے تو کسی کے کمزور۔ اگر نظریات مضبوط ہوں تو دشمن کی شہہ رگ تک پہنچنے کا گن بھی سیکھ لیا جاسکتا ہے۔ نظریاتی درویشوں میں ضیاء دلجان،امیر جان، بارگ جان، حیئ عرف نثار جان، ریحان جان اور کافی سنگت جو دُشمن کا آخری گولی تک مُقابلہ کر تے ہوئے ،نظریات اور راز افشاں کرنے سے گُریزاں رہےاور اپنی گولی بخوشی اپنے جانوں میں سماکر چلے گئے۔
تو پہ سر آنی گڈگء َزندءِحیالانا ں کُشء”
چہ سندگ ءَ داشت کنے پُلاں چہ بُو تالانیاں۔”
خُدا کیلئے ان وطن کے درویشوں کو بُرا نہ کہیں اور نہ ہی ان کیلئے مشکلات کھڑی کریں۔ ہوسکے تو نظریاتی سنگت بن کر ان کی مدد کریں، پتہ نہیں بُھوکے پیاسےکن حالات میں ہم اور آپ کے مستقبل کی جنگ لڑرہے ہیں، تاکہ ظلُمتوں کے دن ختم ہوجائیں اور آزاد مستقبل سے ہمکنار ہو سکیں۔ آیئے ان جذبوں کو سانس بخشیں، زبان بخشیں۔ عزم تو اُنھوں نے کیاہےلیکن خون کے آخری قطرے اور بوند بوند تک ہم بھی اپنے سپاہیوں کا ساتھ دیں۔۔۔۔
دیدغا کو خنتا ، اللہ اُستنا بند آکو،اللہ اُستنا بند آکو ”
پڑدہ اس نن کے یار ،اللہ شھید آتا رندآکو،اللہ شھید آتا ہندآکو “