شمعِ بلال
بیرگیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا کے عظیم تر لوگوں کے ساتھ جُڑ جانے انکے زندگی کا حصہ بننے، تاریخ میں انکے ساتھ کہیں کسی کونے میں یاد آنے کی خاطر آپ کو انکے عمل میں، انکے فکر کا حصہ بننا پڑتا ہے۔
یہ لوگ آپ کو تلاش سے نہیں ملتے، یہ ملتے ہیں انکے چُنے ہوئے رستوں پر، ہاں انکا چُنا ہوا رستا پُرخار ہوتا ہے، پُر کٹھن ہوتا ہے، دشوار ہوتا ہے، جہاں تک چلنے کی خاطر اپنے انا، ذاتی خواہشات کو روندنا ہوتا ہے، وہاں قوم، قومیت، وطن و اسکے باسی اور انکی آزادی و آزاد سماج ہی آپ کے سوچ کا مرکز ہونا ہے۔
ایسے ہی نرمزاروں کے کارواں کا ایک کمزور سا باسک بن کر انکے ہمت، حوصلوں کے سائے میں چلتا جا رہا تھا، کہیں مشکلات، مصیبتیں، سختیاں انہی بہادر نڈر ساتھیوں کے کاندھوں پر سر رکھ کر طے کرتا گیا، سفر یونہی چلتا رہا۔
پھر کچھ سال بعد پہاڑوں سے کہیں اور تنظیمی سلسلے میں جانا پڑا، اسی دوران وطن کے کئی سپوت پہاڑوں کے چٹانوں پر بسیرہ کرنے پہنچ گئے تھے، جن میں سے ایک سپاہی رازق عرف بلال عرف جلال بھی تھا، جس سے ملاقات نہیں ہو پایا تھا جس سے نظریہ و عمل کا رشتہ تھا، جسے ابھی تک دیکھا نہیں تھا۔
کئی وقت گذرنے کے باوجود مجھے میرے فیسبک، پھر وٹسپ پر میسج آیا، میں سنگت کو پہچانا نہیں پھر اس نے کہا سنگت میں بلال ہوں مجھے بلال نام سے سنگت کے موجودگی کا معلوم تھا مگر دیکھا نہیں تھا۔
اسی وقت اسکے ساتھ نیٹورک پر موجود سنگت شہید ضیاء عرف دلجان سے میں نے اسکے متعلق پوچھا تو سنگت ضیاء نے کہا کے اس سنگت سے رابطہ رکھو یہیں ہمارے ساتھ موجود ہیں۔ اسکے بعد سنگت سے اسکے آئی ڈی جلال پر اکثر باتیں ہوا کرتا تھا، ہر طرح ہر لحاظ سے ہر مسئلے پر بات ہوا کرتا رہا، خاردار یہ سفر ان ہی سنگتوں کی صحبت میں آسان ہوا جاتا رہا۔
سنگت رازق پہاڑوں سے خاران اور پھر خاران پہاڑوں پر مورچہ زن رہ کر دشمن پر وار کرتا رہا، دشمن کے کارندوں کو نیست کرتا رہا۔ وہ پہاڑی جنگ میں مہارت حاصل کرچکا تھا، اپنے بہادری و مخلصانہ کردار سے موت کو بہت پہلے شکست دے چکا تھا۔
انہی واقعات کو سن کر سنگت سے کئی بار ملنے کی جستجو بڑھتی چلی گئی، مگر ہمارے لیئے ہمارا مقصد، ہمارا جہد، ہمارے ذمہ کا کام اولین ترجیحات میں سے ہیں، اس لیئے کئی سالوں تک سنگت سے دور رہا۔
مگر رستہ، رشتہ، جہد، مقصد کہیں نہ کہیں ضرور مجھ جیسے کمزور شخص کو باور کرانے کی خاطر جلال جیسے مخلص، بہادر، نڈر کرداروں کو لا کھڑا کرتا ہے، جن کی بہادری، ایمانداری، مخلصی اور مہر و محبت سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا جن کی سنگتی میں موت کمزوری، کاہلی، انا، خود غرضی، ذاتی خواہشات، ہیچ ہوکر رہ جائے، یہ جہد کی مہربانی تھی کہ جلال سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
ایک ذمہ دار سنگت نے کال پر بتایا کہ ایک سنگت آرہا ہے، اسے رسیو کرو اور فلان جگہ پہنچاو میں اسی انتظار میں تھا کہ اپنے ذمہ کا کام پورا کروں، سنگت جلال سے رستے میں بات ہوتا رہا جب وہ آیا تو مجھے نہیں معلوم اسکو یہاں بھیجنے والے سنگت نے اس سے کیا کہا تھا، مگر مجھ سے ملنے کے بعد جب میں نے اسے دوسرے ساتھی تک پہنچا کر چلا گیا تو اس نے سنگت سے پوچھا تھا کہ یہی سنگت بیرگیر ہے؟
اگلے دن میں پھر اس سنگت سے ملنے گیا، جہاں پہلی بار اس سنگت سے ملنے کا موقع ملا، جو انتہائی خوش مزاج، ہنس مکھ تھا، مگر ایک سنگت کے مطابق وہ شروعاتی وخت میں کافی غصیلہ ہوا کرتا تھا، ہر بات پر اکھڑ جاتا، مگر اس بار میں جس بلال سے ملا تھا، وہ انتہائی نرم مزاج تھا، گفتگو کا تعرض مجھے گرویدہ بناتا رہا اسکا۔
اس رات صبح پانچ بجے تک میں اور بلال اکیلے بیٹھے باتیں کرتے رہے، مجھے گمان تک نہیں ہوا کہ رات اتنی دیر ہوگئی ہے سنگت بلال تنظیم کے اندر ہوئے انتشار پر کافی نظر رکھے ہوئے تھے، وہ ترجمان آزاد بلوچ کے کمان میں کام کرنے والے اپنے علاقائی سنگتوں کے نا اہلی، کمزوری، سستی و بھٹک جانے کا ذکر کرتا رہا۔
وہ جیئند بلوچ کے کمان میں بھی کئی سنگتوں کے سست رویوں سے گلہ دار تھا، مگر اسکے پاس ہر مسئلے کا حل نیک نیتی کے ساتھ موجود تھا، وہ ڈسپلن کا پابند ذمہ داریوں کا صحیح استعمال و تعین کا خواہش مند تھا، وہ شہری کاموں میں شدت لانے کا خواہش مند تھا، جس کے لیے وہ اچھا سا پلان بھی رکھتا تھا، جس پر مجھ سے پہلے بھی اس نے کئی سنگتوں سے ذکر کیا تھا۔
وہ بلوچ خواتین کے جہد پر گہری نظر رکھا کرتا تھا، وہ اس بات کا حامی تھا کے ہمیں ان سے رابطے رکھنے ہیں، انہیں آگاہی دینی ہے، انہیں کام دینا ہے، سب سے پہلے ہمیں اپنے گھر، اپنے بہنوں سے شروعات کرنی ہے، یہ سوچ یہ خیال ہمیں ختم کرنا ہوگا۔ جو دشمن ریاست نے ہمیں عورت کے متعلق دیا ہوا ہے۔ ہمیں انہی گھروں تک محدود نہیں کرنا بلکہ انہیں مکمل جہد کا حصہ بنانا ہوگا۔ جب ہماری عورتیں، ہمارے جہد کا حصہ ہونگے تو وہ آنے والی نسلوں تک کو تیار کر دینگے، ایک اماں یاسمین ریحان کو تیار کرتا، وہی ریحان کئی رازق، رئیس، ازل تیار کرتا ہے تو تین مائیں مل کر کتنا کچھ کر پائیں گے، ایک عائیشہ بہن بن کر اپنے بھائی کے مقصد و عمل کی پیروی کرکے اور بہنیں بناتی ہیں، تو اس سے ظاہر ہوتا ہیں کہ ہماری ماں بہن بیٹیاں کس قدر ہمارے معاشرے کو تبدیل کر سکتے ہیں۔
ہمیں انکے ساتھ کھڑا ہونا ہے، نہ کہ انکے آگے
مجھے بس اتنا یاد تھا کہ میں ایک ایسے ساتھی سے ملا ہوں، جس سے بس سیکھنا ہی ہے، جس کا انداز گفتگو نظر جمانے پر مجبور کیئے ہوئے تھا، جو باتوں باتوں میں کوئی واقعہ، کوئی قصہ سنا دیتا اور ہم دیر تلک قہقہہ لگا کر ہنستے رہتے۔
ہماری یہی گفتگو اس وقت تک چلتی رہی جب تک آزان کی آواز کانوں تک نہ پڑی، اسکے بعد وہ اپنے کام پر لگ گئے اور ہم اپنے سفر کو نکلے لیکن آج بھی وہی رات، وہی مجلس، وہی مسکراتا چہرا، آنکھوں کے سامنے ساتھ بیٹھے نظر آتا ہے، کسی نئے مسئلے، نئے طریقے، نئے عمل کی گفتگو میں مصروف کیونکہ بلال ہمیشہ عمل کا پیروکار رہا، ہمیشہ دشمن پر قہر بنا رہا۔
وہ آج بھی کراچی کے گلیوں میں پیغام بن کر دشمن کے خلاف جنگ لڑتا ہوا اسے للکار رہا ہے کہ بلال خاران سے پارود پھر کراچی تک تمہاری موت کا سامان لیئے مورچوں میں تیار بیٹھا ہے۔
بس اسے انتظار ہے، اپنے اس لمحے کا جب اسے مادر وطن کا پیغام پہنچے، جب اسے مادر وطن پکارے اور وہ سینہ تانے دشمن کے گھر میں گھس کر اسے نیست نابود کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوجائے۔ سنگت آپ کا جدائی دردناک ضرور ہے، لاکھ تسلیاں، مگر آپ کی جدائی نے جو خلاء پیدا کیا ہے، وہ کبھی پورا نہیں ہوگا۔
مگر یہی اسی لمحے، آپ کے کردار آپ کے عمل نے جو حوصلہ جو ہمت بخشا ہے، وہ میرے حیات کے بلند ترین حوصلوں میں یک تنہا ہے، آپ سمیت سنگت رئیس و سنگت ازل کے نڈر عمل نے ہم جیسے کمزور شخص کو جھنجھوڑ رکھا ہے، آپ کے بہادری کو بیان کرنا حاصل الفاظ بساط میں نہیں آپ کا عمل آپ کے کردار و شخصیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
میں پہلے کے طرح آج بھی یہی کہونگا کے آپ کامیاب ہو چلے اور ہم آپ کے بعد اس راہ کے راہی ہیں بس ایک خواہش ہے، وہاں آپ جیسے ساتھیوں کا دیوان میسر ہو۔