شمعِ اضل
تحریر۔ بیرگیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
درہ بولان اپنے کارناموں سے ایک بلند مرتبہ، بلند نام پا کر چلتن کے دامان میں صدیوں سے ہر سختی و سوری کو خندہ پیشانی سے قبول کرتا ہوا سینہ تانے انگریز سامراج کے دور سے گذرتا ہوا آج کے صدی کا سنگر بنا ہوا ہے۔
بولان جہاں مہر و محبت کی داستانیں، اپنا چھاپ چھوڑ گئی ہیں، وہیں اس بولان میں وطن مادر کے سپوتوں کے نیزوں نے انگریز سامراج کے قلعوں کو نیست کر رکھا تھا، جہاں وادی بولان کے خوبصورتی نے جنت کے مثل بلوچستان کو خوبصورت بنائے رکھا ہے، وہیں بولان اسے غیروں کے لیے موت کی وادی بنا چکا ہے۔
جہاں بولان کے چٹانوں پر وطن مادر کے جانثار بیٹے اپنے وطن مادر کی دفاع میں اپنے سروں کی پروا کیئے بغیر جان ہتھیلی پر رکھ کر صدیوں سے بلوچستان پر ہر یلغار کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
وہیں اسی بولان کی شام ڈھلتی سورج کی کرنوں نے ہمیشہ سے یہاں امن، محبت، مہر کا درس دیا ہے، شام ہوتے چشموں کی روانی میں محبت امن کے گیت سنتے گھر کو لوٹتے شانتل کے آنکھوں میں پنپتے ارمان نے یہاں پر رہنے والے باسیوں کو کس قدر اپنے گھر کو خاک ہوتے ہوئے دیکھنے کا منظر بیان کیا ہوگا، یہاں کے مٹی پر سر رکھ کر کئی افتاد گانِ خاک نے کس قدر اس دھرتی کی پکار کو سنا ہوگا، پہاڑوں پر اپنے من میں مگن بچپن گزارتے وقت ان ننھے پیروں کو بوسہ دیتی بولان نے کس طرح سے اپنے ماں ہونے پر نازاں ہوئی ہوگی، پھر کسی پتھر سرہانے جب یہ بچہ ٹیک لگا کر تھک کر بیٹھ گیا ہوگا تو بولان کی سرد ہوا اسکے گالوں کو چھو کر اسے کس قدر لطف اندوز کیا ہوگا، ہر آکر گزرنے والے جھونکے کے ساتھ ایک درس ایک پیغام دی گئی ہوگی۔
اس بچے کو بتایا گیا ہوگا کہ تم ایک غلام دھرتی پر پل رہے ہو، تم غلام ہواؤں سے لطف اندوز ہو رہے ہو، تم غلامی کے خلاف بہتے لہو کے ان چشموں سے جو گیت سن رہے ہو، یہ تمام تم پر قرض ہیں، یہ تمام تمہارے وجود کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ تا کہ کل تم انہیں زندہ رکھنے کی ڈگر پر چلو، یہ سلسلہ ہم اس بلندی تک قائم رکھینگے جہاں سے تم اپنے وطن مادر کی کوکھ سے نکل کر اسے دنیا کے جبر سے محفوظ بنانے کی خاطر اسکی آواز بنوگے، یہ اس ماں کی امید ہیں اور اسی امید کے ساتھ بولان اپنے فرزند کو پال رہا تھا، پرورش اس قدر خوبصورت ہوا کے وہی بچہ بڑا ہوکر اس قدر اپنے دھرتی اپنے مادر کے درد کو محسوس کرگیا کے اس نے فدائین کا رستہ چُنا۔
پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ بولان نے جو اولاد چُنا تھا، وہ کس قدر نکھر کر کس قدر بہادری، دلیری سے اپنے غمزدہ مادر کے درد کا درمان ہونے نکلا، دنیا نے دیکھ لیا کے 23 نومبر کو عشق وطن میں کس قدر دیوانہ وار ایک ساتھی سنگت اضل عرف ڈاڈا شعور سے لیس اپنے وطن کی آجوئی کے ارمان کو دل میں لیئے بولان سے کراچی پہنچ کر اپنے وطن کی دفاع میں مادر وطن کی آواز بن کر صدیوں سے لگی آگ کو دشمن کے گھروں تک پہنچایا، کیسے اس نے اپنے سیاست، اپنی سوچ، اپنے جہد کا انتخاب اپنے مٹھی سے سیکھا اور اس پر وہ اس قدر عبور حاصل کر چکا کے وہ اپنے جان سے گذر گیا. وہ گذر گیا اپنے لوگوں، اپنے وطن، اپنے دھرتی کے لیئے۔ وہ کر گذرا انکے لئے جنہیں وہ دیکھ رہا تھا، سڑکوں پر مسخ شدہ لاشیں بنتے۔ جنہیں وہ دیکھ رہا تھا سردی سے لرزتے ہوئے آنسو بہاتے۔ اپنے پیاروں کی تلاش میں وہ کر گذرا انکی خاطر جنکے شال کا وارث بن کر وہ ابھرا تھا، جنکے لبوں کی خوشی بن کر وہ زندگی گذار رہا تھا۔
آج وہ انکے تار تار شال کو دیکھ رہا تھا، آج وہ انکے بہتے آنسوؤں کو دیکھ رہا تھا، آج وہ سسکتی ماؤں کے لرزتی لبوں کو دیکھ رہا تھا، وہ تیار ہوچکا تھا اس ظلم و جبر کے خلاف جو دشمن پاکستان نے اسکے ماؤں بہنوں پر ڈھایا تھا، وہ وارث بن کر اپنے جان کا نذرانہ پیش کرکے فنا ہوگیا۔
ایسے ساتھیوں کا دیوان کبھی میسر نہیں ہوا، کبھی مل نہ سکا، مگر یقیناً وہ عظیم تر لوگ ہیں انکا دیوان، انکی باتیں، انکے ساتھ گذرے لمحیں، بخوبی یاد ہونگے، انکے ساتھ وقت گذارنے والے سنگتوں کو مگر مجھے اتنا معلوم ہے کہ ریحان نے اضل جیسے سنگتوں کے حوصلوں کو چنگاری بخشا اور اضل اپنے ہم کوپہ ہم سفروں کے راہوں پر چراغاں کرکے چلا گیا۔
وہ چلا گیا اس ایک نام سے جس میں وہ ڈاڈا بن کر اپنے مہربان بولان سے محو گفتگو تھا، وہ ڈاڈا سے نکل کر پھر سے اضل بن گیا اور اپنے نسلوں تک کے لئے پیغام چھوڑ گیا کہ یہاں سے زندگی کو نامدار بنا کر اپنے قوم و دنیا کے لئے فنا ہوکر اپنے دشمن کے حوصلوں کو نیست نابود کرکے رکھا جا سکتا ہے۔
اس نے ثابت کردیا کہ وہ عبور حاصل کر چکا تھا، اس حقیقت پر کہ اس عمل میں اسکا موت نہیں، اسکے عمل، مقصد و اسکی خود کی زندگی ہے، وہ اپنے فدائین کاروائی کو ایک عمل، ایک کام، جو اسکے ذمہ آیا دشمن کے خلاف ایک کاروائی جان کر کر گذر گیا۔
اس جیسے وطن مادر کے بہادر بیٹے، اپنے جانے کے بعد اپنے پیچھے ایک کارواں چھوڑ جاتے ہیں، جو انکے نقش قدم پر چل کر دشمن کے تمام ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کی خاطر درویش بن کر شال کی سردی میں پنپتی نبضوں کو گرما دینگے، جو ریحان بن کر دالبندین کے میدانوں پر عقاب بن کر ٹوٹ پڑیں گے، وہ اضل، رازق، رئیس بن کر اپنے ہدف پر مسکراتے ہوئے دشمن کے گھر میں گھس کر اپنی آواز دنیا تک پہنچا دینگے۔ یہ کارواں چلتا رہے گا فدائین کا، اس آخری صبح تک اس آخری گولی تک جس کے بعد میرا دیش بلوچستان آزادی، محبت اور مہر کا دیار ہوگا تب بولان مسکرائے گا، تب بولان اپنے کوکھ میں پلتے درویش و اضل کو بانہوں میں بھر لیگی، تب بولان نازاں ہوگی، تب شانتل خوشی کے گیت گائے گی، تب وطن آزاد ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔