بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے متفقہ طور پر وفاقی حکومت سے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت چین اور پاکستان کے درمیان طے پانے والے تمام منصوبوں کا جائزہ لینے کے لیے کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
حکومتی اور حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے صوبائی اسمبلی کے ارکان اسمبلی نے یہ مطالبہ ایوان میں پیش کی جانے والی ایک قرارداد میں کیا ہے۔
اسمبلی ارکان نے دونوں ممالک کے درمیان اربوں ڈالر مالیت کے منصوبوں کے بارے میں بھی وفاق سے ایوان کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
صوبائی اسمبلی سے منظور ہونے والی ایک قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کا سب سے بڑا اور اہم حصہ بلوچستان سے گزرتا ہے لیکن سی پیک کے منصوبوں کی غیر منصفانہ تقسیم سے صوبہ بھر کے عوام ناخوش ہیں۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اس لیے ان منصوبوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک قومی کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ بلوچستان کو رقبے کی بنیاد پر منصوبے دلا کر صوبے کے آئینی حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔
قرارداد کے محرک اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکنِ صوبائی اسمبلی ثنا اللہ بلوچ نے کہا کہ سی پیک سے بلوچستان کو اس کا جائزہ حصہ نہیں ملا جس کی وجہ سے انہوں نے یہ قرارداد پیش کی ہے۔
ثنا اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ سی پیک کی مغربی راہداری کا بڑا حصہ خیبر پختونخوا میں شامل قبائلی علاقوں اور بلوچستان سے گزرتا ہے اور ان علاقوں میں ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سی پیک کے تحت بجلی اور ریلوے کے منصوبے، بڑی سڑکیں، اور صنعتی زون غیرہ ان علاقوں میں لگنے چاہئیں تاکہ یہاں کے لوگوں کو روزگار کے لیے بڑے شہروں کی جانب نقلی مکانی نہ کرنا پڑے اور لوگ اپنے آباء و اجداد کی زمین پر رہ کر ہی پاکستان میں ہونے والی اس ترقی سے فائدہ اُٹھائیں۔
لیکن ان کے بقول بدقسمتی سے حکومت نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی جس سے ان علاقوں کی غربت دور ہوسکے اور یہاں کے عوام کی نقل مکانی کو روکا جاسکے۔
تاہم حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رکن بلوچستان اسمبلی سید فضل آغا کا کہنا ہے کہ سی پیک سے بلوچستان کو مناسب حصہ نہ ملنے کی ذمہ داری صوبے پر حکومت کرنے والے سرداروں اور نوابوں پر عائد ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فضل آغا کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو گزشتہ 70 سال سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے لیکن صوبے پر حکومت کرنے والوں نے کبھی اپنے حقوق کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ وہ اپنی حکومتوں کو بچانے کی کو شش کرتے رہے اور وسائل کی بندر بانٹ میں لگے رہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان ساٹھ ارب ڈالر سے زائد مالیت کے اقتصادی راہداری کے منصوبے میں بلوچستان کو مرکزی اور اس کے ساحلی علاقے اور بندرگاہ گوادر کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
لیکن صوبے کی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اقتصادی راہداری کے تحت تعمیر ہونے والے ترقیاتی منصوبوں میں سے بہت کم غربت اور پسماندگی کا شکار بلوچستان کے حصے میں آئے ہیں جس میں ان کے بقول سابق حکومت کا قصور ہے۔
خود وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان بھی کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان کے لیے سی پیک میں بہت کم منصوبے رکھے گئے ہیں اور ان منصوبوں کی آمدن کا بھی بہت کم حصہ صوبے کو ملے گا۔
جمعے کو صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں وزیرِ اعلیٰ کا کہنا تھا کہ سی پیک کے پیکج میں بلوچستان کا مالی حصہ صرف ساڑھے چار فی صد ہے لیکن یہ بھی واضح نہیں کہ اس ساڑھے چار فی صد سے صوبے میں کون سے ترقیاتی کام ہوئے ہیں یا ہوں گے۔
پاکستان چین اقتصادی راہداری سے متعلق جمعے کو دوسری قرارداد سابق وزیرِ اعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی نے پیش کی جسے صوبائی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک سے متعلق طے پانے والے معاہدے کے بارے میں بلوچستان اسمبلی کے ارکان اور عوام میں تشویش پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس معاہدے کی تفصیلات منظرِ عام پر لاکر صوبے کے لوگوں کے تحفظات کا ازالہ کیا جائے۔