سونے سے جاگنے تک
شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ نیوز
بدھا کے ایک پیروکار نے اس سے آخری وقت میں دریافت کیا کہ “کیا آپ خدا ہو؟”
بدھا نے نفی میں جواب دیا۔۔۔
تو کیا آپ کوئی پیغمبر ہو؟
اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہی دیا بدھا نے۔۔۔
تیسری مرتبہ پیروکار نے پوچھا پھر آپ کوئی ولی ہو؟
بدھا نے اس پر بھی نفی میں جواب دیا۔۔۔
بالاخر پیروکار نے پوچھا “تو پھر آخر آپ ہو کون؟”
ایک لمبے گہرے سانس کے بعد بدھا نے جواب دیا”میں جاگا ہوا ہوں awakened”
یہ آگہی کی ایک انتہائی کیفیت ہے، جہاں انسان خود کو پالیتا ہے، خود کو دریافت کرنا دنیا کا سب سے مشکل ترین کام ہے اور اسی کام کے لیے انسانی تاریخ کا ہر عظیم انقلابی آپ کو برسرپیکار ملیگا۔ سوئے ہوئے ہجوم میں سوئے رہنے والوں کی بھیڑ نظر آتی ہے لیکن کون ہے جو اس بھیڑ میں جاگنے کی ہمت رکھتا ہو۔
انقلابی جب خود جاگتے ہیں تب وہ اپنے ارد گرد پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں، اعتقادی القابات ان کے لیے معنی نہیں رکھتے بلکہ وہ اپنی پہچان سوئے ہجوم میں ایک جاگے ہوئے کردار کے طور پر کرواتے ہیں۔
انسانی تاریخ کے صفحوں میں ایسے بے شمار کردار نظر آتے ہیں، جنہوں نے اپنے کردار سے سماج پر گہرے اثرات مرتب کیئے اور انسانی ذہن کو اعتقادات کے چنگل سے نکال کر عقل و دانست کی کسوٹی پر چیزوں کو پرکھنے کا درس دیا۔
ایک جگہ سدھارتا کہتے ہیں کہ میری باتوں پر ایمان لانے کی بجائے انہیں اس طرح پرکھو جیسے تم سونا خریدتے وقت پرکھتے ہو۔ یعنی جو باتیں بیان کی جاتی ہیں ان پر من و عن ایمان لانے کے بجائے ان کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا ہی انسانی شعور کا معراج ہے وگرنہ ہجوم کے شور و غل میں تو بس تقلید کی گونج ہی ملتی ہے۔
ہم اس بات کا تجزیہ کریں کہ تاریخی تسلسل میں جاگنے کے عمل کو ہم اپنے سماج سے وابستہ اپنی تحریک اور خاص کر اپنے کردار میں کس مقام پر پاتے ہیں؟
شخصیت پرستی، گروہیت یا قبائلی مزاج کے تحت کارفرما سوچ و عمل میں کیا ہم جاگ چکے ہیں؟ یا جاگ سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنے سوئے رہنے کے لیے حیلے بہانے تراشتے ہوئے انسانی عقل و فہم سے عاری روایتی روش پر قائم نہیں؟
ان گذشتہ چند سالوں میں کیا کھویا کیا پایا؟ ان تمام باتوں کی جانچ پڑتال باریک بینی سے ہونی چاہیئے کیونکہ ہم خواب خرگوش میں محو جاگنے سے اکتاہٹ دکھا رہے ہیں، ایسے میں ہم اور ہمارا روایتی کردار سوتا ہی چلا جارہا ہے اور ہم جاگنے کے عمل سے دور بھاگ رہے ہیں۔
جاگنے کے لیئے خود کو جھنجوڑنا ہوگا، اپنی نفسیاتی کیفیات کو سمجھتے ہوئے پرانے روش کو ترک کرنا ہوگا، جو روش ہمیں سلادے وہ ہمیں دوبارہ ہرگز نہیں جگا سکتی بلکہ جاگنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی انا پرستی سے بالاتر ہونا ہوگا اور جب ہم جاگے ہوئے ہونگے تب ہم اور ہمارا سماج ایک بہتر مقام پر ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔