سفید ریش اور پُر کشش چہره
تحریر : حیراف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سفید داڑھی پُرنور اور پُر کشش چہره، چہرے پہ جُھریاں شاید وقت سے پہلے ہی ماما کے چہرے پہ عیاں هونا شروع هوگئے تهے. عموماً تو یہ سفید داڑھی، چہرے پہ جُھریاں وغیره کسی پیر مرد یعنی کسی بوڑھے ضعیف شخص کی پہچان اور علامت ہوا کرتی ہیں. لیکن یہ سب نشانیاں وقت سے پہلےاختر بلوچ عرف ماما رستم کی چہرے کی علامت کیسے بنے؟ کیا ماما رستم وقت سے پہلے پیران سالی میں نہیں پُہنچے؟ اور کون سے عوامل ہیں، جنہوں نے ماما رستم کو وقت سے پہلے جوانی کے آیام ہی میں اسپیت ریش(سفید داڑی) کے حامل بنادیا؟
آئیے ان پر آپنے بساط کے مطابق غور کرتے ہیں. لوگوں کو اکثر یہ کہتے سُنا ہے کہ جن پہ زمہ داری آن پڑتی ہیں تو وقت سے پہلے بوڑهے ہوجاتے ہیں اور ایسا اسلیئے ہوتا ہے کہ وه آپنا زیاده تر وقت محنت مُشکَت، سوچ ءُ بچار اور حالات جتنے بهی سخت اور پُر کهٹِن هو انکا مقابلہ بڑے صبر اور متحمل سے کرتے ہیں. اور ایسے زمہ دار لوگ اکثر بہت خُودار اور مستقل مزاج ہوتے ہیں جو آپنے ذاتی،جسمانی اور ذہنی تکالیف اور سختیوں جن سے وه روزانہ کی بنیاد پہ نبردِ آزما ہیں کسی سے زکر نہیں کرتے اور یہ سختی سوری، پریشانیاں انہیں اندر هی اندر ذہنی اور جسمانی حوالے سے کهوکھلا کردیتی ہیں چونکہ یہ کهوکلا پن اُنہیں یک دم سطحی طور پر نظر نہیں آتا جس کا اُنہیں بروقت ادراک ہوسکے بلکہ یہ مجموعی طور پر وقت کے ساتھ شدت اختیار کرلیتی ہے، جنکا براه راست شکل وُ جسامت اور انسانی دماغ پر بهی گہرا اثر پڑتا ہے. کهانے پینے اور بر وقت سونے کا بهی اس میں بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے اور اکثر ایسے حالات اور واقعات کسی نوآبادیاتی سماج میں بکثرت سے پائے جاتے ہیں، جہاں کے لوگ زندگی کے تمام تر شعبہ جات، بنیادی انسانی حقوق اور اور زندگی بسر کرنے کی سہولیات سے محروم، نوآبادکار کے ظلم وُ جبر کے شکار ہوتے ہیں. شاہد یہی وجہ تهی کہ ماما رستم بهی وقت سے پہلے بڑهاپے کے دور میں داخل هوچکے تهے. کیونکہ وه بهی ایک نوآبادیاتی سماج کے فرد کی حیثیت رکهتے تهے اور نو آبادکار کے ظلم جبر سے تنگ، دلبرداشتہ ہوکر نوآبادکار کے خلاف اپنی قومی آزادی کی جدوجہد میں قدم رَکھ کر قومی آزادی کی زمہ داریوں کا بهاری بوجھ اپنے کاندھوں پہ اُٹها کر چلتا رہا نوآبادکار کے خلاف لڑتا رہا. ہر قسم کی ذہنی اور جسمانی تکالیف کا سامنا جرت اور بہادری سے کرتا رہا. اپنے ساتهیوں کے ساتھ ہر محاذ پر ڈٹ کہ کهڑا رہا۔
یہی وجہ تهی کہ وه اپنے ساتهیوں سمیت دُشمن کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کهٹکتا رہا اور بالآخر نوآبادکار (جو سامراج کی شکل اختیار کرچکا ہے) کے ہاتهوں آپنے ساتهیوں سمیت جامءِ شہادت نوش کرکے ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے.
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔