سردی کے باعث احتجاج پر بیٹھے ماما قدیر بلوچ سمیت خواتین و بچے بیماریوں کا شکار- طیبہ بلوچ

443

ماما قدیر بلوچ سرد موسم میں احتجاج پر بیٹھنے کے باعث شدید بیمار ہوگئے ہیں جبکہ دیگر خواتین و بچے بھی متاثر ہورہے ہیں- طیبہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کے مطابق بلوچ ہیومن رائیٹس آرگنائزیشن کی چیئرپرسن نے کہا ہے کہ بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک دہائی سے احتجاج کرنیوالے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ سردی کے باعث شدید بیمار ہوچکے ہیں، جس کے باعث احتجاجی کیمپ میں حصہ نہیں لے پارہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار طیبہ بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم احتجاجی کیمپ سے سوشل میڈیا میں جاری کردہ اپنے ویڈیو پیغام میں کیا۔

طیبہ بلوچ کا کہنا ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے ماما قدیر بلوچ سردیوں کے موسم میں احتجاجی کیمپ کوئٹہ سے کراچی پریس کلب کے سامنے منتقل کرتے تھے لیکن اس سال لاپتہ افراد کے لواحقین کے احتجاج کے باعث ماما قدیر نے احتجاجی کیمپ کوئٹہ میں جاری رکھا، سردی کے موسم میں مسلسل احتجاج کے باعث ماما قدیر بلوچ شدید بیمار ہیں اور ڈاکٹروں کے مطابق وہ بہت کمزور ہوچکے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کوئٹہ میں کافی حد تک سردی بڑھ چکی ہے۔لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی کیمپ میں عورتیں اور بچے بیمارہورہے ہیں جبکہ ان پرکسی بھی حکومتی ادارے کی جانب سے توجہ نہیں دی جارہی ہے بلکہ انہیں نظر انداز کیا جارہا ہے جوکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

طیبہ بلوچ نے کہا کہ اس طرح کے سنگین مسئلے پر حکومتی ادارے، وزیر اعلیٰ بلوچستان توجہ دے اور اس کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کرے جبکہ انہوں نے تمام افراد سے اپیل کی ہے کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کا ساتھ دیں اور ان کے احتجاجی کیمپ کا حصہ بنیں۔

یاد رہے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ماما قدیر بلوچ گذشتہ ایک دہائی سے کوئٹہ اور کراچی میں احتجاجی کیمپ لگاکے جدوجہد کررہے ہیں جبکہ انہوں نے کوئٹہ سے کراچی اور اسلام آباد تک لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لانگ مارچ بھی کیا ہے۔

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے گذشتہ ایک مہینے سے زائد عرصے سے احتجاج میں وسعت دیکھنے میں آئی ہے جہاں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچ ہیومن رائیٹس آرگنائزیشن کے ہمراہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی بڑی تعداد احتجاج میں حصہ لے رہی ہے جبکہ اس عرصے میں احتجاجی ریلیاں نکالنے کے ساتھ دھرنے بھی دیے گئے ہیں۔