بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں گوادر پورٹ اور ایکسپریس وے جیسے ریاستی استحصالی منصوبوں کو ماہی گیروں کا معاشی قتل عام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے استحصالی منصوبوں کی وجہ سے ماہی گیروں کی محفوظ اور اہم شکار گاہیں مکمل ناپید ہوچکی ہے۔سی پیک جیسے تباہ کن منصوبے کے ابتدائی اثرات نے بلوچ عوام کواس قدر مفلوج کر رکھا ہے کہ وہ نان شبینہ کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں اور اب اس منصوبے کی آڑ میں بلوچ عوام کو مکمل نیست و نابود کرنے کے لئے ان کے روز گار کا حق بھی چھینا جارہا ہے۔ ماہی گیر گزشستہ ایک سال سے سی پیک اور ایکسپریس منصوبے کی وجہ سے معاشی استحصال کی وجہ سے تکالیف کا سامنا کررہے ہیں۔بلوچستان کے ساحل کی لمبائی 770 کلومیٹر طویل ہے اور اس پٹی میں رہنے والے عوام کا ذریعہ معاش ماہی گیری سے وابسطہ ہے۔ 80 فیصد غریب لوگ دو وقت کی روٹی اور زندگی کے پہیے کو چلانے کے لئے ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں لیکن ریاست اپنے منصوبوں کی آڑ میں غریب اور مظلوم عوام سے انکے زندہ رہنے کا حق بھی چھین رہا ہے۔
ترجمان نے مذید کہا کہ جب سے استحصالی منصوبہ سی پیک شروع ہوا ہے۔ ماہی گیروں کی مشکلات اور تکالیف میں بھی خاصا اضافہ ہوچکا ہے جس کے خلاف ماہی گیر گزشستہ کئی مہینوں سے فاقے کی حالت میں احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔بلوچستان کے ماہی گیروں سمیت تمام طبقہ فکر کے لوگوں کا معاشی، سماجی، تعلیمی و سیاسی استحصال کی ذمہ دار ریاست اور اسکے ذمہ دار ادارے ہیں جو ترقی کے نام پر بلوچ عوام کو اپنے سر زمین پر ہی اقلیت میں تبدیل کرنے کی پالیسیوں کو تقویت دے رہے ہیں۔معاشی قتل عام کے منصوبے کے تحت ریاست بلوچ قوم کو مختلف مسائل میں الجھا کر بلوچ قومی شناخت کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ ریاست کی چالبازیوں اور استحصالی منصوبوں کے عوامل اور مقاصد کو سمجھ کر بلوچستان سے انکے غلیظ منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے ماہی گیر، کسان،مزدور اور دیگر مکتبہ فکر سے وابسطہ بلوچوں کو سیاسی و سماجی شعور سے لیس ہو کر اپنے قومی جدوجہد کو تیز کرنا ہوگا۔