راستہ کھٹن ہے مگر چلنا بھی ہے – لیاقت بلوچ

1005

راستہ کھٹن ہے مگر چلنا بھی ہے

لیاقت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

راستے کبھی کھبی منزلیں کھوتے ہیں، کھبی منزل سے دور اور نزدیک لیکر دھوکہ دیتے ہیں مگر جاہل اور امیدوار انسان انہی بد قسمت راہوں کے مسافر ہیں، موت تک ٹھوکریں کھا کھا کر مرجاتے ہیں۔ ہم تھے ہمارے رستے ساتھیوں بس چلنا تھا منزل کی طرف لیکن راہ پر وحشت ناک قاتل زندگی موت کے کھیلنے والے تھے، انھوں نے ہزاروں جانشیں دوستوں کو چھینا ہے، کبھی پہاڑ و بستیاں، درخت، ویرانے سب بیتے لمحوں اور ساتھیوں کی یاد دلاتے ہیں. زندگی گذر رہا ہے، اسی بے حس اور بے یقین دنیا میں. جب سورج طلوع ہوتا تھا تو اس سے پہلے ہم بیدار ہوتے تھے کیونکہ ہمیں سورج سے پہلے بیدار ہونے کی عادت پڑ گیا تھا، ہم بہت دوست نہیں بلکہ بھائی سے بھی آگے اپنے لیۓ مہر مجت رکھتے تھے وہ ہمارے ساتھی ہم ایک ہی منزل کے سپاہی ہیں، ہم ہر وقت اپنا ہر قدم منزل کو قریب لانے کی جدوجہد میں تھے اور اپنی کامیابی کیلۓ دشمن کو ہمیشہ شکست دینے کیلۓ طلوع ہوۓ تھے۔

ہم دوستوں نے اکھٹے کئی سخت اور کٹھن حالاتوں کا سامنا خندہ پیشانی سے کیا، ہم ہر وقت حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کیلۓ دھوکہ اور دغابازی نہیں تھا، دوستی کی بنیاد جب رکھی جاتی ہے ایک انسان دوسرے کے ساتھ محبت مہر اور ایمانداری سے پیش آتا ہے۔ ہماری محبت، مہر، حوصلہ، ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ حقیقت اور ظاہر بھی تھی کیونکہ ہم اپنی منزل تک پہنچنے کیلۓ دوستوں اور عزیزوں کو ہمیشہ ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں وہی مہر کرتے ہیں جنکی بنیاد کبھی ختم نہ ہو۔ ہم ہر وقت پہاڑوں میں گھومتے ہیں لیکن دن گذرنے کے بعد ہماری غلامی کی طرح ایک سیاہ شام تھی جو ہمارے آرام اور راحت کا وقت تھا۔ شام بہت سرد تھی ہمیں ایک سپاہی ہونے کے ناطے اپنی حفاظت کیلۓ گھاٹ بھی ضرورت تھی، ہر ایک اپنا فرض ایمانداری سے نبھاتا تھا لیکن انہوں نے مجھ سے کبھی گھاٹ نہیں لیا کیونکہ میرا عمر بھی چھوٹا تھا لیکن میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنی عمر کا فائدہ اٹھا کے خود کو بچالوں کیونکہ میں یہاں آرام اور آسودہ ہونے کیلۓ نہیں آیا ہوں، بحثیت ایک سپاہی آیا ہوں یہاں بس فرض ہے کہ اپنا فرض نبھانا ہے اپنے مادر وطن کیلۓ.

شام سرد تھی خاموشی تھی اکیلا چاند تھا، چمکتے ستارے اور ایک بنکر میں بیٹھی جانشیں جو ہمارے حفاظت کیلۓ بیدار تھا، خاموش تھا، سردی کی وجہ سے کانپتا تھا۔ جب میں اسکے پاس جاتا تو وہ اپنے سرد اور غمزدہ چہرے پر مسکراہٹ لے آتا. لیکن مجھے نیند نہیں آتا کبھی احساس کی باتیں کبھی شرم کبھی فخر سب میرے ذہن میں آتے، سنگت کی معصومیت اسکی ایمانداری مہرومحبت میرے ذہن سے نہیں جاتے، میں انکو ہمیشہ سلام کرتا ہوں۔

صبح ہم فجر کی آزان سے پہلے بیدار ہوتے تھے، اپنے لیۓ چاۓ اور کھانا بناتے تھے بعد میں ایک شکاری جاسوس جو پورا دن پرواز کرتا، ہم ہر وقت دشمن سے بچنے کیلۓ اپنی راہیں فون پر باتیں بدلتے تھے کیونکہ ہمیں زندہ رہنا تھا ایک مظلوم اور غلام قوم کیلۓ قدمیں آگے بڑھانے تھے، پہاڑوں میں موبائل فون کا نیٹ ورک بھی نہیں ہے، دور کچھ دوست جاتے، علاقوں سے نئے حالاتوں کا پوچھتے تھے کبھی بلوچ بہنوں، کبھی بھائیوں کی لاشیں، کبھی اغوا اور نسل کشی کا خبر لے آتے تھے، ایسی حیرت ناک خبریں جو انسان کو ہلاتے تھے۔ بس ہم اپنی جذباتی باتوں کو اپنے قومی درد میں بدلتے اور وہی درد ہم کو مظبوط اور ایک قابل انسان بناتا تھا۔

ایک میں، رہبر اور دوسرے ساتھی جب سفر کیلۓ روانہ ہوتے تو ہم جنگوں اور دنیاوی خبروں کی بات کرتے، بلوچ قوم کی لا چاری انکے مسقبل اور اپنی پالیسیاں بناتے تھے، دل میں یہی تھا کہ اگر ہم رہیں یا نہ یہ وطن ضرور رہے۔ یہاں ہزاروں کا خون بہا ہے اس جنگ کی جڑیں بہت دور جڑی ہیں، یہ جنگ اپنے منزل تک جب پہنچے گا جب ہر بلوچ اپنا گھر اور کام چھوڑ کر تحریک اور آزادی کیلۓ اٹھتا ہے اور ایک دن شہیدوں کا بہا ہوا خون رنگ لائے گا، ملک آزاد ہوگا سب کچھ اپنا ہوگا، وہ شہید کل ہمارے درمیان میں تھے لیکن آج نہیں ہیں انکا سوچ نظریہ ہمارے ساتھ ہے، انکے جنگ کردہ مثالیں اور انکے خون سے سرخ بندوقیں جو انھوں نے ہمیں دی تھیں وہی ہماری حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ہم دشمن کیلۓ آگ بن کر ان پر پڑتے ہیں۔

یہ یہی راستے ہیں کل ہمارے درمیاں کچھ اور ساتھی تھے آج نہیں ہیں یہ راستے باتیں سب ہمارے ساتھ ہیں، ہم انکے بتاۓ ہوۓ باتوں کو کبھی نہیں بھولیں گے، وہ امر ہوگئے دل اور جان میں، ایک جگہ چھوڑگئے ہیں، ہم اکیلے نہیں ہیں شہید ہمارے ساتھ ہیں سرمچاورں منزل قریب آرہی ہے اور دشمن کو شکست دینے کیلۓ ہمت اور حوصلے سے جنگ ہم سب کریں گے اور اپنی منزل آزادی تک ایک دن پہنچ جائیں گے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔