دس دسمبر اور بلوچستان میں سنگین انسانی حقوق کی پامالیاں ۔ توارش بلوچ

202

دس دسمبر اور بلوچستان میں سنگین انسانی حقوق کی پامالیاں

توارش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج یعنی 10 دسمبر کی مناسبت سے پوری دنیا میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جائے گا، بڑے بڑے پروگرامز، سیمینارز اور کانفرنسیں ہونگی بڑی بڑی تقاریر ہونگی، دنیا میں امن و امان کیلئے ہونے والے کوششوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا عالمی انسانی حقوق کے ادارے دنیا میں اپنی اپنی تنظیمی کی جانب سے رپورٹیں پیش کریں گی اور لفاظی اور جذباتی تقاریر کے دوران یہ عہد و پیمان کیا جائے گا کہ دنیا میں کہیں بھی ہونے والے جبر اور طاقت کی مخالفت کریں گے اور جہاں کہیں بھی انسانی حقوق کی پامالیاں ہو رہی ہیں وہاں ایکشن لیا جائے گا، اور اقوام متحدہ کے ذیلی تنظیمیں کے لیڈران کی جانب سے اقوام متحدہ کی تعریفوں کے پل باندھے جائیں گے، مختلف انسانی حقوق کے علمبردار خطاب کریں گے اور اقوام متحدہ کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔

جب پوری دنیا میں بس کچھ مخصوص جگہیں جیسے کے صومالیہ، فلسطین، یمن، عراق اور شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تھوڑی بات کی جائے گی اور دنیا کے دیگر خطوں میں سر اُٹھانے والے بحران اور وہاں جنم لینے والی انسانی المیہ پر از روایت خاموشی ہوگی جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تو لوگوں کا اس پر بہت بڑا بھروسہ قائم ہو گیا تھا، پوری دنیا کو جھنجھوڑ دینے والی دوسری عالمی جنگ کے بعد عام لوگوں نے جنگ سے توبہ کرلی تھی لیکن سامراجی ریاستوں نے اپنے اپنے مفادات کیلئے جنگ کو جاری رکھی، قبضے کا سلسلہ جاری رہا۔ اقوام متحدہ کے قیام کے ہی وقت پاکستان نے عالمی قوانین کو اپنے پاؤں تلے روند کر بلوچستان پر قبضہ جبری جمایا جو آج تک قائم ہے۔

دنیا میں امن کے قیام کا ذمہ دار عالمی ادارہ جودوسری جنگ عظیم کے ہولناکیوں کے بعد قائم ہوا تھا کہ اب دنیا میں لوگوں کی عزت مجروح نہیں کی جائے گی، قوموں پر جبری قبضہ نہیں کیا جائے گا دنیا کے سارے عالمی طاقتیں اقوام متحدہ کے چارٹر کی پابندی کریں گے اب کوئی طاقتور ملک کسی کمزور قوم پر دھونس دھمکی اورفوجی طاقت کے بل بوتے پرلشکرکشی کرتے ہوئے کسی زمین پر دہشت گردی کرے گا اور کسی قوم پر جبراً طاقت کا مظاہرہ کرے گا تو عالمی انسانی حقوق کی رہنمائی کرنے والا یہ پلیٹ فارم ان مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوگی لیکن کاش یہ ایک حقیقت اور سچ ہوتا تو آج پاکستان جیسے دہشت گرد ملک اور اس کی فوج طاقت کے نوک پر مظلوم اقوام پر جبر اور طاقت کا مظاہرہ نہ کر رہا ہوتا۔

بلوچستان آج ایک مکمل وار زون میں تبدیل ہو چکا ہے، جہاں ریاستی فورسز عام عوام پر مکمل طاقت کا وحشیانہ استعمال کر رہا ہے، پاکستان میں نا بلکہ اکیلا بلوچ ریاستی جبر کا شکار ہیں بلکہ دوسرے اقوام اور اقلیتی قومیں ناروا سلوک کا سامنا کررہی ہیں، ہزارہ نسل کشی سندھی سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی پختونوں کی چھ سالہ نسل کشی سمیت بلوچوں کی آئے دن مسخ شدہ لاشیں پھینک دینا اور بلوچستان میں طاقت آزمائی کرنا ریاستی فورسز کا ڈیلی روٹین بن چکا ہے۔ بلوچستان سے کئی ہزار لوگ آج بھی لاپتہ ریاستی عقوبت خانوں میں دربدر کی زندگی بسر کر رہے ہیں، بلوچستان سے گمشدہ افراد کی تصدیق پاکستانی فوج سمیت دوسرے کٹھ پتلی حکومتیں مختلف جگہوں میں کر چُکے ہیں

نیشنل ایکشن پلان اور ایپکس کمیٹی کے فیصلوں کے تحت سرکاری کٹھ پتلیوں کی جانب سے لاپتہ افراد کی گمشدگی کی تصدیق ریکارڈ پر موجود ہے، اُس وقت کے بلوچستان کے کٹھ پتلی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اگست 2016 میں اعلان کیا کہ 2015 اور 2016 کے دوران 2,825 آپریشنوں میں 13,575افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اس سے پہلے دسمبر 2015 کو بلوچستان کے ہوم سیکریٹری اکبر حسین درانی نے خود اپنے بیان میں یہ اعتراف کیا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت بلوچستان بھر سے 9 ہزار سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا گیاہے اور 2004 میں اس وقت کے وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ نے بھی 4 ہزار افراد کی گمشدگی کا باقاعدہ اعتراف کیا تھا، یہ تصدیق ریاستی کٹھ پتلیوں کی ہے حقیقت اس سے بھی بھیانک ہے کیونکہ بلوچستان میں ایک بھی ایسا دن نہیں گزرتا، جب وہاں کوئی گمشدہ نہ کر دیا جائے لیکن ان اعترافات اور تصدیق کے باوجود بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بنائے گئے نام نہاد کمیٹی کے چیئرمین جاوید اقبال یہ دعویٰ کرتا ہے کہ بلوچستان سے گمشدہ افراد کی تعداد چند سو کی تعداد میں ہے جبکہ پاکستانی کٹھ پتلیوں کی جانب سے اعتراف کئے گئے گمشدہ افراد کی کل مجموعی تعداد چھبیس ہزار پانچ سو پچھتر (26575) بنتی ہے یاد رہے کہ یہ اعترافات 2016 تک کے ہیں جبکہ 2016 کے بعد بھی بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی تعداد ہزاروں میں رہا ہے، شہروں سے لیکر چھوٹے علاقوں تک پاکستانی فورسز نے درجنوں افراد حراست بعد لاپتہ کیے ہیں

نومبر 2016 میں اکیلے کراچی سے پندرہ سے زائد طلباء لاپتہ کیے گئے، جن میں پرامن سیاسی تنظیم بی ایس او آزاد کے مرکزی لیڈران بھی شامل تھے جبکہ حالیہ دنوں شال جیسے بڑے شہر میں بھی درجنوں طلباء گمشدہ کیئے گئے ہیں، ایک جانب لاپتہ افراد کیلئے کیمپ لگایا گیا ہے تو دوسری جانب گمشدگی کا سلسلہ بدستور تیزی سے جاری ہے۔ اس سے صاف صاف ظاہر ہوتی ہے کہ ریاستی فورسز کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں اس انسانی بحران کے ذمہ دار پاکستانی عدلیہ سمیت دوسرے ادارے بھی ہیں جو ریاستی فورسز کے کہنے پر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں، جسٹس جاوید اقبال کو بلوچ لاپتہ افراد پر سب سے پہلے سرفراز بگٹی کو سوال کرنی چاہیئے کہ جنہوں نے 13 ہزار افراد کو گرفتار کرنے کا اعتراف کیا تھا اُن سے پوچھا جائے کہ ان افراد میں سے کتنے پھر بازیاب ہوئے اور جو باقی لاپتہ ہیں وہ کہاں پر ہیں انہیں قانون کے کہٹرے میں کیوں نہیں لایا جاتا۔ اگر ان میں سے کوئی مجرم ہے اور کسی غیر قانونی سرگرمی کا حصہ رہے ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے دنیا کے کون سے قانون نے ایک فوج کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ ہزاروں لوگ بنا کسی وارنٹ کے گرفتار کریں لیکن پاکستانی اداروں کی بے بسی کا پوری دنیا کو احساس ہے۔

میڈیا پر بھی مکمل پابندی عائد کی گئی ہے، بلوچستان کے مسئلے پر کوئی بھی چینل بات نہیں کر سکتا ماسوائے بی بی سی کے بلوچستان پر باقی سارے میڈیا چینلز کا مؤقف اور بیانیہ سرکاری اور ایجنسیوں کا ہے جبکہ بی بی سی کا بھی بلوچستان میں نمائندہ ایک ہے، جو صرف کوئٹہ میں ہونے والے واقعات پر رپورٹنگ کرتا ہے جبکہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں جہاں ریاستی فوج عوام پر اپنی مکمل زور آزمائی کر رہا ہے وہاں پر کوئی بھی میڈیا چینل نہیں ہے جبکہ سی پیک پر بھی رپورٹنگ بس گوادر تک محدود ہے جبکہ دیگر سارے علاقے سی پیک کی وجہ سے تباہ کیے گئے ہیں، ریاستی فورسز اور پاکستانی حکمران عام عوام سے خوفزدہ ہے جبکہ اخبارات کا حال بھی یہی ہے جو بس سرکاری اشتہارات اور پارلیمانی کٹھ پتلیوں کے بیانات دینے تک محدود ہی ہے جبکہ قوم پرست اور آزادی پسند رہنماؤں کے بیانات کو دینے سے بھی قاصر ہیں۔

لیکن بڑی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستانی میڈیا ریاستی اداروں اور کٹھ پتلی پارلیمانی پارٹیوں سمیت عالمی دنیا بھی بلوچستان میں ہونے والی اس جبر اور ناانصافی پر خاموش ہے اور پاکستان عالمی دنیا کی خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بلوچستان میں جبر، طاقت اور ظلم کو مزید وسعت دے رہا ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں رہنا موت کو دعوت دینے کے برابر بن چُکا ہے، پاکستانی عدلیہ پارلیمنٹ اور میڈیا سمیت عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں نے بھی چپ کا چادر اوڑھ لیا ہے اور ریاستی فوج کی وحشیانہ حرکتوں پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں جو اس کی ساخت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

بلوچستان میں ریاستی جبر اور طاقت کی بہیمانہ استعمال سے آج پوری دنیا اچھی طرح آگاہ ہے لیکن پاکستان کے ساتھ اپنے کچھ معاہدات کی وجہ سے اس انسانی المیہ پر خاموشی طاری کیئے ہوئے ہیں، ان کا تو سمجھ آتا ہے جو اپنے مفادات کیلئے بےبس ہیں لیکن جو ادارے انسانی حقوق کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں، انہیں بھی سانپ سونگھ گیا ہے جو اپنے ہی منشور کے برخلاف بلوچستان میں ہونے والے بربریت پر خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں، جو ان کے اپنے آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے۔ جن کی بے بسی پر ہم حیران ہیں کہ آیا وہ کیوں بلوچستان میں ہونے والے جبر پر بات نہیں کر رہے، جس پر کھل کر بات کرنا ان کی ترجیحات میں شامل ہونی چاہیئے لیکن اس کے باوجود بلوچ آزادی پسندوں کے مؤقف کو سُنا نہیں جارہا جو آنے والے وقت میں ان کو تاریخ کے اوراق میں مورودِ الزام ٹہرائے گی۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔