خوشحال مستقبل کے لیئے آج جدوجہد کرنا ہوگا – بانک مشال بلوچ

232

خوشحال مستقبل کے لیئے آج جدوجہد کرنا ہوگا

بانک مشال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اب دل میں خوف پیدا ہوگئی ہے، بات کرنے اور فون اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ ہمت ہوتی ہے کہ میں سوشل میڈیا استعمال کروں کیونکہ اب ڈر سا لگتا ہیکہ کچھ برا نہ سنوں کیونکہ میں نے مسکراتے ہوئے چہروں کو غم میں بدلتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ میں اپنے دوستوں کے چہروں میں ہمیشہ مسکراہٹ دیکھ کر آئی ہوں نہ انکے دل میں خوف تھا نہ انکے دل میں کوئی مایوسی تھی، وہ ہمیشہ مسکراتے ہوئے کہتے تھے کہ یہ ظلم اور جبر بہت جلد ختم ہوگا بہت جلد یہ مایوسی ختم ہوگی اور نوجوان ایک بار پھر اکٹھے ہوکر اپنے مسائل کے لیے آواز اٹھائینگے اور ایک پر امن اور خوشحال ماحول بنائیں گے۔ مگر وہ باتیں انکے چہروں کی مسکراہٹ مجھے درد اور دکھ دیتا ہے کہ ایک خوشحال مستقبل کے خواب دیکھنے والے آج خود زندانوں میں جیل ہیں اور انکی مستقبل خوشحالی کی جگہ اندھیرے کمرے میں بدل گیا ہے۔ مگر مجھے یقین ہے وہ وہاں بھی خوش ہونگے اور اپنے آنے والے نسل کی خوشحال مستقبل کے لیے سوچ رہے ہونگے کیونکہ وہ ہمیشہ اپنے آنے والے نسل کے لیے سوچتے تھے۔

جب بھی ان دوستوں سے ملی تو وہ ہمیشہ مسکراتے، کبھی کبھی مجھے یہ بات بری بھی لگتی تھی کہ یہ ہر جگہ اتنے ہنستے کیوں ہے مگر مجھے اس راز کو سمجھنے میں وقت ضرور لگا مگر انکے ساتھ بیٹھ کر مجھے احساس ہوگیا کہ اس مسکراہٹ کے پیچھے کیا راز ہے جب انکے ساتھ میری ڈسکشن ہوتی تھی، میں سوال کرتی تھی اور وہ جواب دیتے رہتے تھے تب مجھے محسوس ہوا کہ یہ اندر کتنے ٹوٹے ہوئے ہیں، انکے چہرے پہ مسکراہٹ انکے اپنے ساتھ ایک دھوکا ہے کیونکہ یہ دوسروں کو خوش کرنے کےلیے ہنستے ہیں اور اس مایوسی کو ختم کرنے اور ایک خوشحال ماحول بنانے کے لیے ہنستے ہیں۔ مگر مجھے اس وقت سمجھنے میں وقت لگا اور ان سے ملنے کے بعد میری سیاسی تربیت ہوئی اور میں انکے ساتھ نظریاتی طور پر بہت قریب رہی روزانہ شام کو بلدیہ میں بیٹھ کر چائے پینا اور ڈسکشن اب زندگی کا حصہ بن چکا تھا، مگر اب وہاں سے گذرتی ہوں تو ڈر سا لگتا ہے کیونکہ انکے بغیر وہاں کا ماحول تنہا لگتا ہے اور بلدیہ کیفے خاموش لگتا ہے، جو مجھ سے نہ قابل برداشت ہے۔

ڈر میرے اندر ہی اندر جگہ بنا رہی ہے لیکن میں اس سے بچ کر دور جانے کا سوچ رہی ہوں مگر سوشل میڈیا اور فون مجھے ڈرا دیتے ہیں کیونکہ مجھے وہ دن یاد ہے کہ مجھے جب فون آیا کہ ظریف رند، چنگیز بلوچ، اورنگ زیب بلوچ مسنگ ہوگئے ہیں تو دل میں اچانک سے بہت خیالات نے جنم لیا اور جب فیس بک کھولی تو انکی تصویریں دیکھ کے میرے دل میں مزید خوف پیدا ہوگیا کیونکہ سوشل میڈیا دیکھنا بہت دردناک ہے، جب وہاں دیکھتی ہوں تو انسہ بلوچ کی تصویر نظر آتی ہے اسکا بھائی دو سال سے لاپتہ ہے کسی اور بچی کا بھائی مہینوں سے لاپتہ ہے کسی کسی کو پانچ سال سے بھی زیادہ ہے۔

مجھے ڈر سا لگتاہیکہ کیا میرے دوستوں کا بھی یہی حال نہیں ہو؟ جب فون پر کال آتا ہے تو ہاتھ کانپتے ہیں کہ کوئی بری خبر سننے کو نہ ملے کہ ہمارے دوسرے کوئی دوست مسنگ نہ ہوا ہو اور ان زندانوں کے قیدیوں کے بارے میں کچھ غلط نہ سنوں؟ گھبراہٹ سی ہوگئی ہے، مجھے اپنے ساتھیوں کو لیکر مگر وقت اور انقلابی ہمسفروں کی تربیت مجھے خاموش بیھٹنے نہیں دیتی میں بھی انکی فکر کو آگے

لے جانے کی قسم کھاتی ہوں۔ اور کسی قربانی سے گریز نہیں کروں گی۔ اپنے استادوں کے کارواں کو لیکر آگے جاونگی اور یہ مسکراہٹ پھیلاتی رہونگی اب خاموشی اور مایوسی سے بہتر ہیکہ اس کاروان کے استادوں کے فکر کو آگے لے جائیں اور اس ڈر اور خوف کو شکست فاش دی جائے۔

میں ہر باشعور نوجوان سے درخواست کرتی ہوں کہ اس عمل کا حصہ بنیں اور بی ایس او کے مرکزی قائدین سمیت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک اہم کردار ادا کریں۔

ایسا نہ ہو کہ وقت سے پہلے آپکو ان مشکلات کا سامنا ہو اور تنہا بیٹھ کر مایوس ہوجائیں۔ اپنے کل کے لیے آج سوچنا ہوگا اور منظم ہوکر اس کاروان کو اس فکر کو آگے لے جانا ہوگا۔

یہی کارواں امن کا کارواں ہے آشتی کا کارواں ہے۔ اسی کارواں کو منزل تک پہنچانے کیلئے نوجوان شب و روز جدوجہد کریں۔

اتحاد ، جدوجہد آخری فتح تک

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔