خبط اور وار سائیکی – برزکوہی

370

خبط اور وار سائیکی

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

بدقسمتی کہیں یا کمزوری، بلوچستان یا بلوچ قوم پورے 70 سالوں سے ایک جنگ زدہ ملک اور جنگ زدہ قوم ہے، بلوچ قوم اس وقت بھی سر سے لیکر پیروں تک، بلکہ ایسا کہیں نسل در نسل ایک war سے گذر رہا ہے، مگر وار سائیکی پر یا اس پہلو پر بہتر انداز و جاندار حکمت عملی کے تحت، تسلسل کے ساتھ کوئی خاص منصوبہ بندی دکھائی نہیں دیتا بلکہ کوئی خاص توجہ بھی نہیں ہے اور اس حقیقت سے انحراف خود کو دھوکا دینے اور سورج کو انگلی سے چھپانے کے مترادف ہوگا کہ طویل جنگ سے بلوچ قوم اور بلوچ جہدکاروں پر نفسیاتی اثرات مرتب نہیں ہونگے۔ دنیا کے مختلف تحریکوں اور جنگوں میں کوئی ایک مثال نہیں ملتا ہے کہ وہاں کے لوگ جنگ سے متاثر ہوکر نفسیاتی امراض کے شکار نہیں ہوئے، تو پھر کیسے بلوچ قوم یا بلوچ جہدکار محفوظ ہونگے، قطع نظر دشمن اور دشمن کے فورسز زیادہ تعداد میں نفسیاتی امراض کے شکار ہوئے۔ وہ اس لیئے کہ ان کا تنخواہ اور مراعات کے علاوہ کوئی حقیقی مقصد اور حقیقی فکر نہیں ہوتا ہے۔

اس حوالے سے نفسیاتی بنیادوں پر مکمل توجہ اور ٹھوس نفسیاتی تجزیے کے ساتھ انتہائی باریک بینی سے وسیع پیمانے پر غور و تحقیق کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے کہ قابض قوم اور قابض فوج کن کن حالات میں کن کن نفسیاتی امراض کا شکار ہوگا اور محکوم قوم اور محکوم قوم کی قومی آزادی کی حصول کی خاطر لڑنے والے جہدکار کن کن حالات میں کن کن نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں اور کیسے تحلیل نفسی کی بنیاد سے وہ ان مسائل سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں؟ اگر موثر طریقہ کار سے تحلیل نفسی بروئےکار نہیں لایا گیا تو پورے غلامانہ سماج پر منفی اثرات مرتب ہونگے اور اس کے تمام منفی اثرات براہِ راست قومی آزادی کی جدوجہد پر اثر انداز ہوکر تحریک اور پارٹی کو متاثر کرتے ہیں۔

اس پہلو پر بہت کم غور و توجہ ہوتا ہے، جدوجہد تحریک اور تحریکی پارٹیوں میں جنم لینے والے اکثر مسائل کا براہِ راست نفسیاتی اثرات یعنی نفسیاتی امراض سے پیدا ہوتے ہیں، اگر ان کے حل اور وجوہات کو کسی اور خانے میں ڈھونڈا جائے تو وہ کبھی نہیں ملینگے بلکہ وہ موجود ہوکر مزید شدت اختیار کرینگے۔ اس حد تک پھر وہ اعصابی امراض کے سرحدوں کو پار کرکے جسمانی امراض میں تبدیل ہونگے۔

اسی تناظر میں اگر غور کیا جائے خبطobsession ایک نیوراتی اور نفسیاتی مرض ہے مختلف ماحولیات اور حالات کے علاوہ بھی اس نفسیاتی مرض کا بھی تعلق براہے راست وار سائیکی سے ہوتا ہے، جس کا تعلق انسان کی سوچ سے ہوتا ہے۔ اگر ایک جیسا بھی سوچ باربار غیرارادی طور پر انسان کے ذہن میں آئے اوروہ بار بار کوشش اور چاہنے کے باوجوداس سوچ کو اپنے ذہن سے نکال نہ سکے تو ایسے انسان کو نفسیاتی سائنسی اصطلاح میں خبطی انسان کہا جاتا ہے اور اس کے ذہنی عمل کو خبط (obsession) کا مرض کہا جاتا ہے یعنی ایک ایسا انسان جو اپنے خیالات پر قابو نہ پا سکے، اس کے ارادے کے بغیر کچھ خیالات اس کے ذہن میں آتے رہیں اور وہ اپنی مسلسل کوششوں کے باوجود ان خیالات سے چھٹکارا نہ پاسکے۔ ایسا شخص ذہنی ونفسیاتی مریض یعنی خبط کا شکار ہوتا ہے۔

آج اگر غور کیا جائے، بلوچ جہدکاروں کے ذہنوں میں بے شمار ایسے بے سروپا و لغو قسم کے خیالات، غیرارادی طور پر ان کے ذہن میں آچکے ہیں۔ وہ کوشش بھی کرتے ہیں لیکن وہ نہیں نکلتے ہیں، تو سیدھی سی بات ہے نفسیاتی مرض خبط میں مبتلا ہیں۔ مثال کے طور پر ناچاہتے ہوئے مسلسل کوشش کے باوجود بلاوجہ کسی سے کسی کا اچانک موڈ و مزاج خراب ہونا یا عدم مطابقت کا شکار ہونا یا کسی کے بارے میں عدم اعتمادی کا خیال ذہن پر سوار ہونا یا پھر اندھا اعتماد کا خیال ذہن پر ہمیشہ ہونا اس کے علاوہ اسی قسم کے بہت سے ایسے خیالات ہوتے ہیں جو انسان کے ذہن میں اترتے ہیں، انسان لاکھ کوشش کرتا ہے کہ وہ نکل جائیں لیکن ممکن نہیں ہوتا، غم و خوشی، نفرت کے، محبت کے وغیرہ وغیرہ۔

تو پھر سمجھ جانا چاہیئے میں مرض خبط کا شکار ہوں، جب مریض کا علاج فوری نہیں ہوا تو یہ پورے عمر انسان کے مقدر کا ساتھی ہوگا۔

اس کا تشخیص زیادہ آسان نہیں بغیر کسی ماہر نفسیات کے، لیکن پھر بھی ماہرین کے آراء کے مطابق جب بھی ایسے قسم کے خیالات جو نہ چاہتے ہوئے یا بار بار کوشش کے ذہن سے نہیں نکل سکے تو انسان کو خود اس پر توجہ دینا ہوگا اور سوچنا ہوگا آیا یہ خیالات غیرارادی طور پر میرے ذہن نہیں آرہے ہیں؟ آیا میں مرض خبط کا تو شکار نہیں ہوں؟ بار بار مسلسل غور کرنے کے بعد اگر واقعی ایسا ہی ہے تو کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرنا لازمی ہے یا پھر اپنے مرض کو جان جانے اور اعتراف کرنے کے بعد یہ فیصلہ کریں کہ مجھے اب اس مرض سے ہر حال میں نکلنا ہی ہوگا، تو بار بار مصمم ارادہ اورwill power کے ذریعے ایسا ضرور ممکن ہوگا، انسان مرض خبط سے چھٹکارہ حاصل کریگا۔

ویسے بھی زیادہ تر تمام نفسیاتی امراض سے چھٹکارہ پانے کے لیئے میڈیسن کی بھی ضرور ضرورت ہوتی ہے، مگر سب سےاہم اور پہلے will power دوسرا اہم امر کونسلنگ کی ہوتی ہے۔ will power کے لیے کونسلنگ ضروری ہوتا ہے اور کونسلنگ کے لیے انسان کا اپنا will power بھی ضروری ہوتا ہے، دونوں لازم و ملزوم ہیں اور میڈیسن وقتی طور پر شاید وقتی ریلیف مہیا کرسکے، مگر دیرپا اور مستقل حل اور علاج نہیں ہوتا۔

تمام جہدکاروں کی ذہنی و فکری اور سیاسی تربیت شعوری بنیادی پر will power کو ہمیشہ زیادہ سے زیادہ توانائی فراہم کرتا ہے، جب will power توانا ہونے کے بجائے کمزور ہوگا، تو نفسیاتی مرض خبط کے ساتھ دیگر نفسیاتی امراض کے شکار ہونے کی خدشہ ہوتا ہے، جہدکار ہمیشہ اپنی will power پر زیادہ توجہ دیکر اسے خود توانا رکھنے کی مسلسل کوشش کریں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔