خاموش بغاوت
تحریر۔ بانک مشعل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
حالات کا جبر اور تاریخ کا ستم دیکھیں، اب بلوچ ہونا اور بلوچیت کی بات کرنا سیاسی اور انسانی حق کی بات کرنا سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔ اس بات کا جواب مجھے آج مل گیا جب میں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اسکول آنا جانا شروع کیا تو میں نے مختلف قسم کے عروج اور زوال دیکھے، جب میں گھر سے نکل کر اکیڈمی کی طرف جاتی تو راستے میں ہمیشہ میں نے شور شرابہ سنا ہے، لوگوں کو روڈوں پر دیکھا، انکے ہاتھوں میں تصوریں تھیں، چھوٹے بچوں سے لیکر بوڑھے مردوں کی، عورتوں کی مگر مجھے کبھی یہ پتا نہیں تھا کہ یہ کیوں روڈوں پر اسطرح کی زندگی گذار رہے ہیں۔ کیا انکا گھر نہیں ہے؟ یا انکو روڈوں پر بیٹھنا اچھا لگتا ہے؟ یہ سوال میرے ذہن میں بہت بڑا بوجھ بن گیا تھا، میں جتنی کوشش کرتی تھی مگر اسے دور نہیں ہوا جاتا تھا کیونکہ وہ بچوں کی آہ و فریاد ماوں کی آہ و بکاہ مجھ سے یقیناً نہ قابل برداشت تھی مگر پھر بھی میں روز انکے سامنے سے گذرتی تھی اور انکی آنکھوں میں آنسو دیکھتی تھی۔
وقت گذرتا گیا اور یہ مساٸل روز بہ روز بڑھتے گئے۔ میں اسکول سے فارغ ہوکر اکیڈمی تک پہنچ گئی، میڈیکل ٹیسٹ کی تیاری کر رہی تھی، میں اپنے اکیڈمی کی کتابوں اور گھر تک محدود تھی۔ میں اور کسی بارے میں سوچتی نہیں تھی، یہ سفر جاری ہی تھا کہ پڑھنے اور آگے جانے کا حق بلکل ہی نہیں تھا۔ میں بھی اس ظلم اور جبر کا حصہ بنی اور مجھ سے میرے پڑھنے کے ارمان چھین لیئے گئے۔ اسی وقت ایک بغاوت شروع ہوئی اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان سمیت فیملیاں سڑکوں پر آگئے اور اپنے جائز مطالبات کا ڈیمانڈ کر رہے تھے۔ مجھے اس وقت پہلی دفعہ اس بات کا احساس ہوا کہ اتنے سالوں سے روڈوں پر کیوں یہ سب لوگ بیٹھے ہیں، مگر اچانک ایک ایسا وقت آیا کہ میں خود روزانہ صبح گھر سے نکل کر پریس کلب کے سامنے روڈوں پر انکے ساتھ بیٹھنے جاتی تھی، اسی دوران مختلف تنظیموں کے نام سے لوگ ہمارے ساتھ آکر بیٹھتے تھے اور ڈسکشن کرتے تھے، مگر ان میں سے دو لوگ ایسے تھے جو نہ کسی تنظیم کا نام لیتے تھے اور سب سے پہلے آتے تھے۔ ان کو گائیڈ کرتے تھے، ایک ہفتہ گذرنے کے بعد میری جب ان سے بات ہوئی تو اس نےاس بات کی وضاحت کی کہ میرا نام اورنگ زیب بلوچ ہے اور دوسرا چنگیز بلوچ ہے۔ اور بتایا کہ تعلق ایک بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او سے ہے۔ تفصیلی بحث و مباحثہ ہوا انکے ساتھ اور وہ مجھ سمیت سب اسٹوڈنٹس کو سمجھاتے تھے۔
ایک مہینے تک روزانہ وہ آتے تھے، مختلف اکیڈمیز میں وزٹ کرتے تھے اور تکلیفیں برداشت کرتے، مگر ہمیشہ انکے حوصلے بلند تھے اور سب سے آگے کھڑے ہوتے تھے۔ اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیتے تھے، یہ سفر جاری رہا اور میں انکے پروگرام سے متاثر ہوکر اس کاروان کا ہمسفر بنی اور روزانہ ڈسکشن انکے ساتھ کرتی۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کے آپ ظریف رند سے ملیں، انکے ساتھ ڈسکشن کریں، آپکے جو سوالات ہیں انکا جواب مل جائیگا۔ میرے لیے یہ نام نیا تھا پہلی دفعہ میں نے یہ نام انکے منہ سے سنتا تھا، یہ سفر لگ بھگ ایک مہینے سے زیادہ چلا، مگر آخر میں کچھ وجوہات کی بنا پر یہ کیمپ ختم ہوا اور ہم واپس اپنے گھر کی طرف لوٹ گئے، مگر میرا انکے ساتھ رابطہ تھا۔
ایک دن بلوچستان یونیورسٹی میں اسٹڈی سرکل رکھا گیا تھا، وہاں میں بھی گئی اور چیئرمین ظریف رند بھی وہاں موجود تھے، طویل ڈسکشن کے بعد مجھ سمیت دیگر کامریڈز متاثر ہوئے اور باقاعدہ اس کاروان کے ہمسفر بنے۔ میں نے اورنگ زیب بلوچ، چنگیز بلوچ، ظریف رندکے چہرے پر ہمیشہ بغاوت محسوس کیا۔ ایسا لگتا تھا کہ انکو قوم کے بدحالی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ کبھی اپنی زندگی کے بارے میں سوچتے ہی نہیں تھے، وہ ہمیشہ نوجوانوں کو تعلیم علم و آگہی کی طرف لانا چاہتے تھے، انکو مایوس ہونے سے روکتے تھے اور انکی سیاسی تربیت کرتے۔ وہ خاموشی سے نفرت کرتے تھے، ہمیشہ دوسروں کے لیے جیتے تھے اور حق کی بات کرتے تھے۔ مگر ہم جس سرزمین پر رہتے ہیں یہاں حق کی بات کرنا، پڑھنا گناہ سمجھا جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ میرے استادوں کو بھی وہی سزا ملی جو برسوں سے اس قوم کے نوجوانوں کو دیا جا رہا ہے۔
آج مجھ سمیت سب بلوچ کہتے ہیں کہ ہم سب مجرم ہیں کیونکہ ہم حق کی بات کرتے ہیں اور ہم اس گناہ کو بھی قبول کرتے ہیں اور خاموشی سے بغاوت کرتے ہیں، یہ کارواں کسی بھی طرح نہیں رُکے گا یہ سفر جاری رہیگا ہمیشہ۔
میرے عظیم استادوں کی انقلابی جد و جہد کو انقلابی سلام،
اب بلوچ ہونا اور جد وجہد کرنا میرے ایمان کا حصہ بن گیا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔