جو پتہ پوچھتے تھے کسی کا کبھی لاپتہ ہو گئے دیکھتے دیکھتے – حکیم واڈیلہ

606

جو پتہ پوچھتے تھے کسی کا کبھی
لاپتہ ہو گئے دیکھتے دیکھتے

حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچستان میں ریاست پاکستان نے گذشتہ ایک دہائی سے تاریخی ظلم و جبر جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔ گوکہ اس ظلم و جبر کی تاریخ طویل ہے مگر گذشتہ ایک دہائی میں پاکستان بلوچستان میں اپنے طاقت کا ہر ممکن استعمال کرچکا ہے یا کررہا ہے۔

لوگوں کو اغواہ کرنے کا سلسلہ ہو یا انہیں ڈرا دھمکا کر سیاست سے دور کرنے کا عمل جاری ہے۔ جو شخص یا تنظیم پاکستانی ظلم و جبر کے سامنے سر نہیں جھکائے، انہیں بدترین اذیت و تشدد کا نشانہ بناکر انکی مسخ لاشیں ویرانوں میں پھینک دی گئی ہیں یا اکثر لوگ ابتک لاپتہ ہیں۔ پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ افراد کی فہرست کافی طویل ہے، ہزاروں لوگ آج بھی زندانوں میں قید ہیں۔ سینکڑوں لاپتہ افراد کے اہلخانہ پریس کلبوں کے سامنے اپنے اہلخانہ کیلئے احتجاج کررہے ہیں۔ وہ پاکستانی آئین کے مطابق اپنے پیاروں کی بازیابی کی مانگ کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی شخص ریاست کے آئین اور قانون کے مطابق گناہ گار ہے تو اسے کورٹ میں پیش کرنے کی درخواست کررہے ہیں۔

لاپتہ افراد کے اہلخانہ کا موجودہ احتجاج جو کافی موثر ثابت ہوا اور لوگ جوق در جوق اس میں شرکت کررہے ہیں، بلوچستان کا طالب علم طبقہ خصوصی طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے آواز اٹھارہی ہے۔ اس آواز میں ایک پر اثر آواز بی ایس او (سابقہ پجار ) کے دوستوں کی ہے، جنہوں نے ہر ممکن طور پر لاپتہ افراد سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بی ایس او نے گذشتہ دنوں اپنے کونسل سیشن میں یہ اعلان کیا تھا کہ ہم مسلح جدوجہد اور پارلیمانی پارٹیوں سے خود کو آزاد کرکے طلبہ سیاست کو شفاف کرکے آئین و قانون کے تحت اپنے حقوق کی جدوجہد کو آگے بڑھائینگے۔ مگر سیشن کے کچھ روز بعد ہی بی ایس او کے مرکزی رہنما جئیند بلوچ اپنے والد اور چھوٹے بھائی سمیت لاپتہ کردیئے گئے (جئیند بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے آواز اٹھارہے تھے) جو تاحال لاپتہ ہیں۔ بی ایس او اور جئیند کے اہلخانہ اپنے پیاروں کی بازیابی کی خاطر احتجاج کررہے تھے اور پانچ دسمبر کو ایک ریلی کا انعقاد کیا گیا، جسمیں بی ایس او کے چیرمین ظریف رند بہت ہی واضح الفاظ میں پاکستانی ریاست کے غیبی طاقتوں سے التجا کرتے دکھائی دے رہے تھے کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے کورٹ میں پیش کیا جائے تاکہ لوگوں کا اعتماد آپکے اداروں پر بحال ہو اگر آپ (ریاستی فورسز) اداروں کی عزت نہیں کرینگے تو کون کرے گا۔ شاید ریاستی فورسز کو ظریف کا انداز بیان گراں گزرا ہو تبھی انہوں نے ظریف بلوچ کو اپنے کابینہ کے دیگر عہدیداروں سمیت لاپتہ کردیا۔

یہ بلوچستان کی سیاسی تاریخ کا ایسا پہلا واقعہ نہیں جہاں پاکستانی قانون کے تحت کام کرنے والے بلوچوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہیں اغواء کیا گیا ہے، شہید کیا گیا ہے۔ کیونکہ ریاست پاکستان کیلئے ہر وہ بلوچ خطرناک اور دشمن ہے جو سمجھتا ہے کہ پنجابی فوج بلوچستان میں لوگوں کو لاپتہ کرنے میں ملوث ہے۔ یا وہ یہ سمجھتے ہیں بلوچوں کے محرومیوں کا سبب اسلام آباد اور پنڈی میں موجود سول اور فوجی بیوریوکریٹس ہیں۔ پاکستانی ریاست کا پیغام بلوچ قوم کیلئے کافی واضح ہے آپ پانی مانگیں یا اپنا ساحل ہم گولی دینگے۔ آپ وطن کی آزادی مانگیں یا اپنے پیاروں کی آزادی ہم دونوں صورت میں آپکو بھی لاپتہ کردینگے۔ آپ مزاحمت کریں یا مخالفت ہم آپکو غدار، بیرونی ایجنٹ قرار دیکر آپکی لاش مسخ کرکے آپکو ویرانوں میں پھینک دینگے۔ آپ طلبہ کے جائز حقوق مانگیں یا طلبا سمیت اپنے قومی ریاست کی بحالی ہم آپکو گولیاں دینگے۔ آپ کچھ بھی مانگیں گے ہم آپ کو جواب میں نفرت، اغواکاری، مسخ لاشیں، اجتماعی قبریں اور غداری کا سرٹیفیکٹ ہی دینگے۔ اگر آپ ہم سے کچھ چاہتے ہو تو اپنی تاریخ، وطن، ساحل و وسائل سب کچھ بھول کر پنجاب سامراج کا غلام بن کر بھکاری کے طور پر مانگو، تب ہم کچھ ہڈیاں تمہارے سامنے پھینکنے کا سوچینگے۔

ریاست اپنے نفرت، سامراجیت اور قبضہ گیریت کو دوام بخشنے کی خاطر ظلم و جبر کی تمام حدیں پار کررہا ہے، اب یہ فیصلہ بلوچ نوجوانوں، بزرگوں، ماؤں اور بہنوں کو کرنا ہوگا کہ ہمیں کیا کرنا ہے کیوں کرنا ہے؟ اگر لاپتہ ہی ہونا ہے تو کیوں نہ اپنی آزادی کیلئے لاپتہ ہوں۔ اگر وہ ہمیں مارنے کی تمام تیاریاں کرچکا ہے تو کیوں نہ ہم بھی اپنی دفاع اور وطن کی وفاع کی خاطر ریاست کو طاقت کا جواب طاقت سے ہی دیں۔ تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں ان تمام ظلم و جبر سے پاک و صاف معاشرے میں آنکھیں کھول سکیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔