جمیل بلوچ کا قصور کیا ہے
تحریر: گزین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پاکستانی ریاست کا دہشت زہر کی طرح بلوچستان کے کونے کونے میں پھیلا ہوا ہے، بلوچ لوگ اپنے سرزمین پر چین سے نہیں رہ سکتے، سانس بھی لینا مشکل کردیا ہے۔ پاکستانی آرمی اور حکومت نے ہر جگہ اپنا قبضہ جما کے رکھا ہے، بےگنا بلوچوں کو اٹھانا اور ان کی مسخ شدہ لاشیِں پھینکنا اور اسکے گھروالوں کی زندگی اندھیرے میں رکھنا معمول بن چکا ہے۔ بلوچستان میں ایسا کوئی گھر نہیں جہاں کوئی لاپتہ یا شہید نہیں ہوا ہو۔ درد کیا ہے یہ بلوچستان کے لوگوں سے پوچھو کیونکہ ان لوگوں نے ہر درد سہا ہے۔ ان لوگوں کو پتہ ہے کہ کیسے گذرتی ہے ان لوگوں کی زندگی۔ کیا بلوچ کو اپنے سرزمین پر رہنے کا حق نہیں؟ کیا بلوچ کو اپنی آواز اٹھانےکا کوئی حق نہیں؟ اگر کوئی اپنے حق کے لئے آواز اٹھائے اس کو بھی لاپتہ کردیا جاتا ہے اور کچھ دنوں بعد اس کی مسخ شدہ لاش پھینکتے ہیں اور جب پریس کلب میں احتجاج کرتے ہیں کہ ہمارے پیارے لاپتہ ہیں، پھر پاکستان حکومت کہتاہے کہ ہم نے کسی کو لاپتہ نہیں کیا ہے، ایسی حالات میں جی رہے ہیں بلوچ، 70 سالوں سے ایسے حالات میں اپنی زندگی گذار رہے ہیں۔
پاکستانی آرمی کا خوف بلوچوں کے دل میں جما ہوا ہے، پتہ نہیں یہ خوف کب تک ایسے بلوچ کے دلوں میں رہتا ہے کیونکہ پاکستانی آرمی کا ظلم دن پہ دن بڑھتا جارہا ہے، پتہ نہیں کب وہ دن آئے گا جب بلوچ چین سے جیئنگے اپنے زمین پر، ابھی بلوچ اپنے زمین پر مہاجر کی طرح اپنی زندگی گذار رہے ہیں۔
آج تقریبا ایک مہینہ ہوچکاہے کہ مسنگ پرسنز کیلئے بھوک ہڑتال جاری ہے، جن میں سے کئیوں کو بے وجہ اذیت دی جارہی ہے، اگر دیکھیں تو سب کے اغوا میں یہی ریاست ملوث ہے، ان کے اغواء کے پیچھے ریاست پاکستان نے بلوچ قوم کے نوجوانوں کو ایک وحشت ناک اور ایک مجبور زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ بلوچستان کا تاریخی ڈھانچہ ختم کرنے میں ریاست دن رات محنت میں مصروف ہے۔
ابھی ہم دیکھیں کوئٹہ میں یہ کیمپ ہے، اس میں گمشدہ افراد کے جو رشتہ دار بڑی تیزی سے اپنی آواز دُنیا کو پہنچانے میں مصروف ہیں، بچوں کو اپنے اسکول، بڑوں کو اپنے کام، چھوڑ کر مجبور ہوکر پریس کلب کے سامنے بیٹھ کر اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک تصویر اور خشک ہونٹ، روتے ہوئے چہرے پر ان کی زندگی سب نظر آتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ کسی کو بھی نظر نہیں آتے؟ اگر جاؤ تو خطرے میں رہتے ہو، نہیں جاؤ تو شرمندہ ہو، مائیں، بہنیں بھائی جو ایک مہینے سے دسمبر کی سردیوں میں بیمار ہوکر پھر بھی اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے آواز اٹھاتے ہیں۔
بلوچ قوم کا نوجوان طبقہ اب ایک ایسے خوف میں مبتلا ہوچکا ہے، انکے منہ کو بندوق کی طاقت نے بند کیاہے لیکن ابھی بھی رکے نہیں، اپنے دوستوں کی بازیابی کیلئے آواز اٹھاتے رہے ہیں وہیں گمشدہ افراد کیلئے بات کرتے ہیں۔ دوسرے دن وہیں گم ہوکر انکے لسٹ میں شامل ہوتے ہیں۔
بلوچستان کی بات کریں وہاں ایک بھی ایسا گاؤں نہیں جہاں پاکستانی آرمی کا چوکی نہیں وہاں کے اسکول، ہسپتال سب جگہوں پر فوج نے اپنا قبضہ جما کے رکھا ہے اور تو اور پاکستانی آرمی نے ٹیچروں کو بھی لاپتہ کیا ہے اور وہ تاحال لاپتہ ہیں۔ کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ بلوچ کے نسل پڑھ لکھ کر آگے جائے۔
آج میں جمیل بلوچ کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، جمیل بلوچ جو آواران کے علاقے تیرتیج سے تعلق رکھتا تھا، وہ ایک انسان دوست شخص تھا۔ جو ہر وقت اپنے ہمسایوں کا خیال رکھتا تھا اس کا اپنا کیھت تھا، جو ہر سال اپنے کھیتوں پر کام کرتا تھا، اپنے گھر اور بچوں کا گذارہ کرتا تھا، وہ اپنے اُس چھوٹے سے گاؤں میں اپنے بچوں کے ساتھ بہت خوش تھا لیکن اپریل 2013 کو ایک فوجی آپریشن میں جمیل بلوچ کو اس کے گھر سے اٹھا کر اسی طرح پاکستانی آرمی نے غائب کر دیا، جسطرح 70 سالوں سے کرتا آرہا ہے اور ابھی تک اس کا حال نہیں کہ زندہ ہے یا نہیں۔ آج یہ چھٹا سال گزرہاہے لیکن جمیل بلوچ ابھی تک لاپتہ ہے، اس کی فیملی کا کیا حال ہے وہ کیسے جی رہے ہیں، عمر کے لحاظ سے جمیل بلوچ بڑا ہے، وہ سیاسی اور دوسرے تنظیموں سے وابستہ نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ تاحال لاپتہ ہے، پاکستانی آرمی نے جمیل کو نہیں بلکہ ہزاروں ایسے بزرگ ٹارچر سیلوں میں بند ہیں پتہ نہیں یہ جمیل بلوچ کی بدنصیبی ہے کہ وہ ابھی تک لاپتہ ہین یا پاکستان کی شکست آکر جمیل بلوچ کا قصور بن گیا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ:اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔