جرمنی: برلن میں بی این ایم کی دو روزہ آگاہی مہم

178

بلوچ نیشنل موومنٹ نے برلن، جرمنی میں ہزاروں بلوچ سیاسی کارکنوں، سماجی کارکنوں، طالب علموں، خواتین اور بچوں کو بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی جانب سے جبری گمشدگی کے خلاف پندرہ اور سولہ دسمبر کو آگاہی مہم کا انعقاد کیا۔

بلوچ نیشنل موومنٹ جرمنی زون کے ارکان اور دیگر بلوچ سیاسی کارکنوں نے دو روزہ آگاہی مہم میں حصہ لیا۔ شرکاء نے پمفلٹ تقسیم کیے اور مقامی لوگوں کو بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا، جہاں پاکستان نے مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد ہزاروں معصوم بلوچ مردوں اور عورتوں کو اٹھا کر لاپتہ کیا۔ دس ہزار سے زائد بلوچوں کو تشدد کے دوران مار ڈالا گیا ہے اور ان کی لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دیا گیا۔

بلوچ نیشنل موومنٹ نے لاپتہ افراد کے خاندانوں، جو ڈیڑھ مہینے سے کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ بھوک ہڑتال پر ہیں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کیلئے اس آگاہی مہم کا انعقاد کیاہے۔

بی این ایم جرمنی کے کارکنوں نے بی ایس او آزاد کے سینٹرل انفارمیشن سیکرٹری شبیر بلوچ جسے 4 اکتوبر 2016 کو تربت گورکوپ سے پاکستان کے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے اغوا کر لیا تھا اس کیلئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی دستخطی مہم بھی چلایا۔ شبیر بلوچ کی فیملی اس کے اغوا کی چشم دید گواہ ہے۔

شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ اور ان کی بیوی پاکستان کے مختلف شہروں میں طویل عرصے سے شبیر بلوچ کی محفوظ رہائی کے لئے احتجاج کر رہی ہیں۔تاہم، ان کے حالیہ دھرنا اور بھوک ہڑتال سوشل میڈیا میں وائرل ہوا اور وہ دوسروں کے حوصلہ کا سبب بنا جن کے لخت جگر پاکستان کے ہاتھوں لاپتہ ہیں۔ انہوں نے بھی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے میں اکھٹا ہو کر اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کیلئے آواز بلند کرنا شروع کیا ہے۔

160بلوچ لاپتہ افراد کے خاندان نے ریلی، مظاہرے اور دھرنا جیسے کئی احتجاج کئے۔ وہ اپنے پیاروں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں جو جو پاکستانی فورسز نے اغوا کئے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان مسلسل انکار کرتا آ رہا ہے۔ لاپتہ افراد کے خاندان نے پاکستان کی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے، لیکن پاکستان اسے چھپانے کیلئے نام نہاد کمیشن بناتا رہتا ہے جو لاپتہ افراد کی تعداد کو غلط پیش کرتے آ رہے ہیں۔

اسی طرح پاکستان میں ایک کنٹرولڈ میڈیا ہے اور بلوچستان سے متعلق خبریں غائب رہتی ہیں کیونکہ وہاں پاکستانی آرمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث ہے اور لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر اٹھایا اور غائب کیا جارہا ہے۔ نتیجے میں لاپتہ بلوچوں کی تعداد جس میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں چالیس ہزار سے زائد ہو گئی ہے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ پاکستانی فورسز کی بربریت کے خلاف مختلف اوقات احتجاج، ریلیوں، کانفرنسوں اور آگاہی مہم کا انعقاد کر تا آرہا ہے۔