تنہا سفر اور ایک تلاش
تحریر۔ جویریہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یہ سفر ایک طویل سفر ہے اور یہ تلاش کسی چیز کی نہیں بلکہ ایک بہن کی اپنے بھائی کو ڈھونڈنے کی تلاش ہے، میرے سفر کا آغاز تب سے ہوا جب نا معلوم افراد نے میرے بھائی کو اس کے دوستوں کے ہمراہ اغواء کیا، تب ہی سے میرے اس سفر کا آغاز ہوا اور میں اس تلاش میں نکلی ہوں پتہ نہیں تھا کہ یہ سفر اتنا طویل ہوتا چلا جائے گا یہ سفر چند گھنٹوں، چند ہفتوں، چند مہینوں کا نہیں بلکہ یہ دس سالوں کا طویل سفر ہے جو کہ اس بھائی کے تلاش میں ہے، جو کہ زندانوں میں کئی سالوں سے قید ہے اس ماں کے لخت جگر کی تلاش ہے جو کہ اپنے فرزند کی راہ تکتے تکتے تھک چکی ہے۔
2009 سے اب تک یہ تلاش جاری ہے کبھی JIT میٹنگز کی صورت میں کبھی کمیشنز کی صورت میں، کبھی سپریم کورٹ رجسٹری کی صورت میں کبھی لانگ مارچ تو کبھی احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ کے ذریعے ان تمام تر صورتحال میں اب تک کہیں سے بھی کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی۔
جس ملک میں منصف انصاف فراہم کرنے کے بجائے ڈیموں کی تعمیر میں مصروف ہوں تو بھلا کیسے کوئی امید رکھی جاسکتی ہے، بلوچستان کے ہر ماں اور بہن کے آنسو ڈیم کو بھرنے کے لیے کافی ہونگے۔
چیف جسٹس صاحب یہاں آپ حال میں رہ کر بلوچستان کے حال ہی کے حالات سے ناواقف ہیں لیکن اپنے مستقبل کے بارے میں بڑا فکر ہے، یہاں ہم بلوچوں کے مائیں اور بہنیں اپنے پیاروں کی یاد میں تڑپ کر مرجاتے ہیں اور ان کو اپنے مستقبل کے بارے میں خوف ہے کہ کہیں وہ پیاس سے تڑپ کر نہ مر جائیں۔
یہاں سوال ہے کہ ایک ماں کے لخت جگر کا ایک بہن کے فخر کا اور وہاں پر سوال ہے خود کو پیاس سے بچانے کا۔ اقتدار میں آنے سے پہلے تو بڑے بڑے دعوے کیئے جاتے ہیں ہر جانب سے بلوچوں کے ہمدرد نظر آنے لگتے ہیں جوں ہی اقتدار میں آجاتے ہیں تو ساری ہمدردیاں بھول کر بلوچوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ ایک نظر پلٹ کر بلوچستان کی جانب بھی تو دیکھیں اپنے تبدیلی کا اثر محض پنجاب تک ہی محدود نہ رکھیں بلکہ بلوچستان کو بھی اس تبدیلی کا حصہ بنائیں، زیادہ نہ صحیح تو تھوڑے سے ہی حصے میں ہمیں بھی اس تبدیلی کا حصہ سمجھ کر ہمارے لئے بھی کوئی تبدیلی لائیں، یہ تبدیلی ہمیں کسی ڈیم کی صورت میں نہیں بلکہ ہمارے پیاروں کی واپسی کی صورت میں چاہیئے۔
بلوچستان کے حالات اور بلوچستان میں ہونے والی اس ظلم و ستم، چیخ و پکار اور یہ سسکیاں شاید کہ اسلام آباد کے ایوان تک نہیں پہنچتے، جس کی وجہ سے وہ خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ ظلم و بربریت کا یہ عالم ہے کہ یہاں انتظار کرتے کرتے بہت سی آنکھیں تھک چکی ہیں۔
میرا یہ سفر تب تک نہیں رکے گا، جب تک کہ میرا راستہ مجھے میرے بھائی تک نہیں ملا دیتا اور جب تک کہ ان بے ضمیر حکمرانوں کی ضمیر نہیں جاگتا اس وقت تک یہ سفر اور تلاش باقی رہے گا۔
یہ سفر کٹھن تو ضرور ہے مگر یہ کٹھن سفر میری عزم اور حوصلے کو کم نہیں کر سکتی، کیونکہ اس سفر نے مجھے چٹان کی طرح مضبوط کیا ہے۔ میں آج بھی اپنے کندھوں پر بے حساب یادوں کا بوجھ لئے چل رہی ہوں تھک تو چکی ہوں ان بے حس حکمرانوں کی غفلت دیکھ کر لیکن حوصلہ اب بھی نہیں ہاری جب تک کہ جان میں جان ہے یہ سفر اور تلاش باقی رہے گا۔
میں اپنے سفر پر تو اکیلے نکلی تھی لیکن جب چلتے چلتے یہ پتہ چلا کہ حالات سے مارے ہوئے میرے ساتھ کچھ اور بھی ایسی بہنیں ہیں کہ انہیں بھی حالات نے میری طرح مجبور کر کے میرے اس سفر کا حصہ بنایا اور آہستہ آہستہ یہ قافلہ بڑھتا گیا اور یہ سفر اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے جہاں ہم سب کا الم ایک ہی ہے ان میں فرزانہ مجید، سیما بلوچ، ماہ رنگ بلوچ، اور ننھی انسہ بلوچ بھی شامل ہےبلوچستان میں ہونے والے اس ظلم کا اندازہ اسی قافلے کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے، جو آئے روز کم ہونے کے بجائے دن بہ دن اس میں اضافہ ہوتاجا رہا ہے۔
ہر کوئی اس تنہا، کٹھن، طویل اور بے حساب یادوں کے ساتھ اس سفر میں اپنے بھائیوں کی تلاش میں نکلے ہوئی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔