بلوچ مِسنگ پرسنز اور دنیا کی خاموشی- گنج بلوچ

471

بلوچ مِسنگ پرسنز اور دنیا کی خاموشی

تحریر: گنج بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

لفظ مِسنگ پرسن انگریزی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی گمشدہ شخص یا ایک شخص کا لاپتہ ہونا ہے، جس کے بارے میں کسی کو علم نہ ہو۔ جب ایک شخص لاپتہ ہوتا ہے یا گمشدہ ہوتا ہے تو اس کے گھر والے رشتے دار قریبی دوست اور محلے والے بہت پریشان ہوجاتے ہیں، اس کی تلاش کی بھرپور کوشش کرتے ہیں تاکہ اس کی تلاش کی جائے، جب تک اس گمشدہ شخص کی تلاش نہیں ہوتی یا اُس کا پتہ نہیں چلتا، یہ سب لوگ انتہائی پریشانی کے عالم میں اپنا وقت گذارتے ہیں لیکن یہاں مسئلہ بلوچ مِسنگ پرسنز کا ہے تو ہم بلوچ مِسنگ پرسنز کے حوالے سے بات کرینگے۔

بلوچ مِسنگ پرسنز کی لسٹ میں ایسے بھی نام شامل ہیں جن کو اغوا ہوئے 20 سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن تاحال وہ بازیاب نہیں ہوئے ہیں، ہر بلوچ مِسنگ پرسن کا اپنا درد ہے کس کی بات کرو ہر بلوچ مِسنگ پرسن اپنے آپ میں ایک کہانی ہے۔ جس انسانیت سوز اذیت کا سامنا بلوچ مِسنگ پرسنز کر رہے ہیں، اُن کے گھر والے، لواحقین بھی اُسی درد میں مبتلا ہیں اُنہیں رات کو نیند آتی ہے نہ دن کو چین آتا ہے۔ ہر لمحہ، ہر دن بس اپنے پیاروں کی بازیابی کے انتظار میں گزار دیتے ہیں۔ کسی کا باپ لاپتہ ہے تو کسی کا بیٹا، کسی کا بھائی لاپتہ ہے تو کسی کا بہن، سارا دن، ساری رات بس اپنے دل میں اپنے پیاروں کی بازیابی کی یاد میں گذار دیتے ہیں، کئی بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے ہوش کھو بیھٹے ہیں، کئی پاگل ہو چکے ہیں اور کئی اسی انتظار میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے پر مہذب دنیا کو کیا پڑی ہے، بلوچ لاپتہ افراد اور اُن کے لواحقین کیلئے کوئی ہمدردی رکھنے کا بلوچ قوم کے فرزند زندہ رہیں یا مر جائیں، اُنہیں اس سے کیا غرض، بلوچ قوم کے فرزند مرے تو مر جانے دو۔

حال ہی میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی کونسل میں قتل پر پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی لیکن 2013 میں بلوچستان کے شہر خضدار کے علاقے توتک میں 170 سے زائد اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں تھیں، جنہیں پاکستان کی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ شفیق مینگل اور اُس کے گروہ نے قتل کرکے دفنایا تھا۔ اُس پر کسی نے کچھ کہنے کی زحمت نہیں کی، واہ کیا خوب کہا ہے کسی نے یہ دنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے، طاقت ہو تو سب کچھ، تمہارا طاقت ہو تو جھوٹ بھی سچ لگتا ہے، اگر طاقت نہ ہو تو سچ ایک پہیلی بن جاتی ہے، جس کی مثال آج بلوچستان میں بلوچ لاپتہ افراد اور اُن کے لواحقین ہیں۔ در در کی ٹھوکریں کھا کر بھی انصاف کے طلبگار ہیں۔ بلوچ مِسنگ پرسنز کا مسئلہ ایک دن، ایک ماہ یا ایک سال کا نہیں ہے، یہ مسلئہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ تب سے جب پاکستان وجود میں آیا تھا اور وجود میں آتے ہی اس نے عالمی طاقتوں کے بل بوتے پر عالمی قوانین کی اصولوں کو پامال کرکے بلوچ قوم کی سرزمین بلوچستان پر جبری قبضہ کرکے اسے اپنا کالونی بنا دیا۔ اُس وقت سے لیکر آج تک بلوچ قوم کے فرزندوں کی زندگیاں اذیتوں سے گزر رہی ہیں کیونکہ بلوچ قوم کے فرزندوں نے پاکستانی قبضے کو کبھی بھی قبول نہیں کیا ہے۔ بلوچ قوم اپنی سرزمین بلوچستان کو آج بھی اپنا وطن اور پاکستان کو ایک قبضہ گیر ریاست تسلیم کرتی ہیں، ایسی لیے ریاست پاکستان بلوچ قوم کو خاموش کرنے اور دبانے کیلئے آئے روز بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوج اور خفیہ اداروں کے اہلکار ملکر آپریشن کرکے لوگوں کے گھروں کو جلانا، مال مویشیوں کو لوٹنا، خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانا، نوجوانوں، بزرگوں کو اغوا کرنا اور ان کو شہید کرکے ان کی لاشوں کو ویران جنگلوں میں پھینک دینا شامل ہے۔

وائس فار بلوچ مِسنگ پرسن کے مطابق پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے 40 ہزار سے زائد بلوچ فرزندوں کو اغوا کیا ہے، اور 4 ہزار کے قریب بلوچ فرزندوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں، اس کی لسٹ وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز ( VBMP) کے پاس موجود ہے لیکن میں سمجھتا ہوں بلوچ لاپتہ افراد کی صحیح تعداد اس سے بھی کئی زیادہ ہے۔ اس کی صحیح تعداد آج تک کسی بلوچ تنظیم یا بلوچ پارٹی سمیت کسی بھی انسانی حقوق کے ادارے کے پاس موجود نہیں ہے کیونکہ پاکستانی فورسز نے بلوچستان کے کئی ایسے علاقوں میں آپریشن کیئے ہیں جہاں مواصلاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے آج تک وہ کاروائی میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوئے ہیں اور کئی خاندانوں کے خاندان پاکستانی فوجی کیمپوں میں انسانیت سوز اذیت کا سامنے کر رہے ہیں لیکن اُن کیلئے آواز اُٹھانے والا اس دنیا میں کوئی نہیں، شاید دنیا میں انسانیت کیلئے آواز بلند کرنا اور انسانیت کیلئے کام کرنا ایک جرم بن چکا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق اگر کہیں بھی کسی ملک میں کسی انسان کے ساتھ ناانصافی ہو تو اقوام متحدہ اُس کی مدد کرنے کا پابند ہوگا اور اس کیلئے اپنی آواز بلند کرکے اُس کا ساتھ دیگا لیکن ریاست پاکستان نے اپنے وجود میں آتے ہی عالمی اصولوں کو پامال کیا اور آج تک وہ عالمی قوانین کی پامالی کررہا ہے لیکن اقوام متحدہ نے اپنے آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی ہوئی ہے اسی لیئے اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا، اگر اقوام متحدہ کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی نہ ہوتی تو شاید اسے بلوچستان کے علاقے کوئٹہ میں 10 سال سے وائس فار بلوچ مِسنگ پرسن (VBMP) کا کیمپ جو بلوچ مِسنگ پرسنز کی بازیابی کے حوالے سے لگایا گیا ہے ضرور نظر آتا اور اس کیمپ میں احتجاج کرنے والے بلوچ مِسنگ پرسنز کے لواحقین کے درد بھرے آنسو ضرور نظر آتے لیکن کیا کریں، اقوام متحدہ کی آنکھوں پر سیاہ پٹی سمیت ہاتھ پاؤں بھی رسیوں سے بندھے ہوئے ہیں، اس لیے شاید وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ورنہ وہ ضرور کچھ کر لیتا، دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں کوئی بھی شخص اگر کوئی جرم کرتا ہے تو اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور اسے عدالت کے مطابق سزا دی جاتی ہے لیکن ریاستِ پاکستان میں ایسا نہیں ہے، پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے اہلکار دن دھاڑے کسی بھی بلوچ فرزند کو اغوا کر لیتے ہیں، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ، بوڑھے ہوں یا بچے، طلباء ہوں یا اساتذہ، ادیب ہوں یا شاعر، دانشور ہوں یا سیاسی ورکر کوئی بھی ان سے محفوظ نہیں ہے اور نہ اس کا جرم بتاتے ہیں اور نہ اُسے عدالت میں پیش کرتے ہیں اور نہ اپنا جرم قبول کر لیتے ہیں۔

اوپر بیان کیا گیا ہے کہ مِسنگ پرسن کے معنی گمشدہ، لاپتہ ، جس کے بارے میں کسی کو علم نہ ہو لیکن بلوچ مِسنگ پرسنز کہاں اور کس حال میں ہیں یہ ساری دنیا جانتی ہے کہ تمام بلوچ مِسنگ پرسنز پاکستانی فوجی کیمپوں میں درد ناک اذیت کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ جتنے بھی بلوچ مِسنگ پرسنز ہیں ان کو فوج اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے اغوا کیا ہے۔ ان کے چشم دید گواہ بھی ہیں اس کے باوجود فوج اور آئی ایس آئی یہ بات نہیں مانتے کیوںکہ ریاست پاکستان میں سب کچھ فوج کے ہاتھ میں ہے حکمران، عدلیہ، انصاف نا انصافی سزا و جزا سب فوج کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان میں جو کچھ بھی فوج چاہتی ہے وہی ہوگا پاکستان دنیا کے سامنے اپنے آپ کو اسلامی و جمہوری ریاست کہتا ہے مگر نہ یہ اسلامی ریاست ہے اور نہ ہی جمہوری ریاست ، نہ اسے اسلام کے بارے میں کچھ پتہ ہے اور نہ ہی اسے جہموریت کے بارے میں علم ہے، اگر ریاست پاکستان کو اسلام اور جہموریت کے بارے میں علم ہوتا تو وہ ایسے عمل نہ کرتا، جس کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے اور نا جہموریت دیتا ہے۔

خیر ریاست پاکستان سے گلا کرنے کا فائدہ بھی نہیں کیونکہ وہ تو قبضہ گیر ریاست ہے لیکن مہذب دنیا کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے مہذب دنیا کو یہ جان لینا چاہیئے کہ بلوچ نہ صرف ایک قوم ہیں بلکہ بلوچ انسان بھی ہیں اور انسانیت کے ناطے مہذب دنیا بلوچ قوم کا ساتھ دیکر بلوچ مِسنگ پرسنز کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں اور انسانیت کو بچایا جائے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔