بلوچستان کے مخدوش حالات اور جدوجہد کا راستہ
تحریر: زلمی پاسون
دی بلوچستان پوسٹ
روس کے اندر مظلوم قومیتوں کے حوالے سے لینن کا ایک مشہور قول ہے کہ’’روس مظلوم قومیتوں کا جیل خانہ ہے‘‘۔ آج کے اس دور میں لینن کا یہ قول پاکستان پر سوفیصد درست لاگو ہوتا ہے۔ گو کہ ہم ہر جگہ پر سنتے ہیں کہ پاکستان ایک قوم نہیں بن سکی ہے جو کہ حقیقت میں دکھائی بھی دیتا ہے۔ یہاں آج مختلف قومیں آباد ہیں جسے ہم آسان الفاظ میں مختلف قومیتوں کا مجموعہ کہہ سکتے ہیں۔ یہ نقطہ اس لیئے بنیادی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس وقت نہ صرف پاکستان جیسے تیسری دنیا اور سابقہ نوآبادیاتی ریاست میں مظلوم قومیتوں کا مسئلہ توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے بلکہ یورپ،مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں بھی اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کے خصی پن کی وجہ سے قومیتوں کا مسئلہ پھر سے ابھر چکا ہے۔ مگر ان کے حل کے لیے وہی پرانے طور طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جو کہ مسئلے کو حل کرنے کی بجائے مزید گھمبیر کرتے جا رہے ہیں۔ مگر پھر بھی مظلوم قومیتیں اپنے جمہوری حقوق کے لئے جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے گذشتہ ایک دہائی سے بلوچ مسنگ پرسنز کا کیمپ لگا ہوا ہے، جس میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے ارکان اور ان کے ہمدرد روزانہ کی بنیاد پر اس کیمپ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں، مگر گذشتہ بیس دنوں سے اس کیمپ میں لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے جو کہ قابل دید ہے۔ اس بھیڑ کی بنیادی وجہ آواران سے آئی ہوئی بی ایس او آزاد کے انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ جو کہ 4 اکتوبر 2016ء کو لاپتہ ہوا تھا، کی ہمشیرہ اور بیوی ہیں جو اپنے بھائی اور خاوند کی بازیابی کیلئے سرگرداں ہیں۔ انہوں نے جب اس احتجاجی کیمپ کا رخ کیا تو ان سے یکجہتی کیلیے صوبے کے مختلف شعبہ جات اور سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ سیما بلوچ کے اس جرات مندانہ قدم کو دیکھ کر دیگر لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنان کے لواحقین نے بھی کوئٹہ پریس کلب کے سامنے موجود اس احتجاجی کیمپ کا رخ کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس کیمپ میں روزانہ نئے 4 سے 5 کے قریب لاپتہ بلوچ مسنگ پرسنز کے لواحقین آتے ہیں، جس میں وہ اپنی دکھ بھری کہانیاں لوگوں کو سناتے ہیں اور لوگوں سے حمایت اور یکجہتی کی اپیل کرتے ہیں۔ کیمپ کے اندر موجود منتظمین نے اب تک کئی دفعہ پریس کانفرنس، ریڈزون تک ریلی اور احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ جس میں بلوچ عوام کی بڑی تعداد شامل ہو رہی ہے اور اپنے جمہوری حقوق کے لیے باہر نکلی ہے جو کہ انتہائی قابل تحسین قدم ہے۔ مگر یہاں پر پھر وہی نقطہ اور سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آج تک اس احتجاجی کیمپ میں صوبائی حکومت، وفاقی حکومت یا دیگر قوم پرست پارٹیوں کے نمائندگان تشریف کیوں نہیں لاتے؟ سوائے چند ایک کے جن کا بھی اپنی سیاسی ساکھ بچانے کا مسئلہ ہوتا ہے نہ کہ بلوچ مظلوم عوام کے دکھوں اور دردوں کی انہیں کوئی فکر ہے۔
کیا احتجاجی کیمپ مسئلے کا حل ہے؟
جیسے پاکستان جیسی سامراجی عزائم رکھنے والی ریاست میں ایک مظلوم قوم یا مظلوم طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے زندگی کی بنیادی سہولیات ناپید ہو چکی ہیں۔ اسی طرح ان مظلوم قومیتوں کے لوگوں کے لیے زندگی کا حق مانگنا، اظہار رائے کی آزادی پر پابندی، ماورائے عدالت قتل، اغوا گردی اور لاپتہ ہونے کے مسائل بھی درپیش ہیں جن کو حاصل کرنے کیلئے مختلف ادوار میں مختلف تحریکیں چلتی رہی ہیں اور اب بھی تحریکیں موجود ہیں۔ جہاں تک بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لگائے گئے احتجاجی کیمپ کا مسئلہ ہے تو اس پر سب سے پہلے ہم اس احتجاجی کیمپ پر بات کریں گے کہ اس احتجاجی کیمپ کا طریقہ کار اور پروگرام کیا ہے۔
جیسا کہ ہم نے اوپر لکھا تھا کہ اس کیمپ کو دس سال مکمل ہونے کو ہیں جس میں چند لوگوں کے علاوہ باقی کوئی اس کیمپ میں نہیں آتا مگر اب کی بار اس کیمپ میں تحرک نظر آیا ہے۔ اس تحرک کے پیچھے وہ کون سے عوامل کارفرما ہیں جنہوں نے راتوں رات بلوچ سماج میں اپنے جمہوری حقوق کیلئے پھر ایک نئی آس بیدار کر دی ہے۔ دراصل بلوچ سماج پاکستان اور خطے سمیت پوری دنیا سے کٹا ہوا ایک الگ خطہ نہیں ہے بلکہ اس وقت سامراجی عزائم رکھنے والے عالمی اور علاقائی سامراجی ممالک نے بلوچستان کی اہمیت کو عالمی کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچستان کے اندر ان سامراجی ممالک کی وجہ سے آئے روز نئے نئے قسم کی لڑائیاں جنم لیتی ہیں، جن میں فرقہ ورانہ فسادات قابل ذکر ہیں۔ ان فسادات کو بلوچ قومی تحریک سے توجہ ہٹانے اور ان کو کمزور کرنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا حالانکہ بلوچستان کے اندر آباد قوموں کے اندر فرقہ واریت اور بنیادپرستی کبھی بھی اپنی جڑیں نہیں رکھتی تھی اور نہ ہی آج اس کی بنیادیں موجودہیں۔ جبکہ دوسری طرف بلوچ اور پشتون کا مصنوعی تعصب بنانے کی بھی بھرپور کوششیں کی گئیں جس میں بلوچ اور پشتون قوم پرست قیادتوں نے اہم کردار ادا کیا ۔مگر آج تک اس صوبے میں آباد قومیتوں کے اندر رنگ، قوم یا مذہب کے نام پر عوامی سطح پر کوئی نفرت اور تعصب دیکھنے کو نہیں ملتا۔
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ جوکہ دھیرے دھیرے ایک تحریک کی شکل اختیار کررہا ہے۔ اس نوزائیدہ تحریک نے نام نہاد جعلی اور موقع پرست قوم پرستوں کو مسترد کردیا ہے اور خودرو طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے۔گو کہ بلوچ قوم پرست پارٹیاں بہت کوشش کر رہی ہیں کہ اس کیمپ اور تحریک کی قیادت کریں مگر کیمپ کے اندر موجود مظاہرین نے بارہا ان کی اس کوشش کو مسترد کیا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ کیمپ کی قیادت پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ سوال ہے کہ قیادت اس کیمپ کو سیاسی پروگرام دینے سے کیوں ہچکچا رہی ہے؟ دوسرا اہم سوال کہ کیا گزشتہ دو احتجاجی ریلیوں اور مظاہروں میں شریک مظاہرین کو سڑکوں پر بٹھا کر ان کو غیر منظم انداز میں لاشعوری طور پر اس تحریک سے کاٹنے کی کوشش کر رہی ہیں؟ تیسرا سوال کہ صوبہ بھر کے اندر بلوچ عوام کو اپنے ساتھ جوڑنے کیلئے اس کیمپ کی قیادت کے پاس کیا پروگرام ہے؟ چوتھا اور آخری سوال کہ کیا بلوچستان کے اندر موجود زوال پذیر سیاسی پارٹیوں کے پاس وہ عوامی مینڈیٹ ہے کہ جس کے کاندھے پر بلوچ عوام تک اپنی آواز پہنچائی جاسکے؟
یہ ہیں وہ چند سوالات جو کہ اس وقت کیمپ کے اندر موجود ہر احتجاجی کے دل میں موجود ہیں جو وہ اپنی قیادت سے پوچھنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں کہ کیمپ میں سیاسی پروگرام کا نہ ہونا کیمپ کی محدودیت کا نتیجہ ہے۔ مگر سیاسی پروگرام کے ذریعے اس کیمپ کی آواز کو صوبے اور ملک کے دیگر مظلوم عوام اور مظلوم قومیتوں تک کیسے پہنچایا جاسکے؟ تاکہ وہ اپنے مفادات کی خاطر اس کیمپ میں آکر بلوچ مسنگ پرسنز کے مطالبے کی کھل کر حمایت کر سکیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی احتجاجی مظاہرے یا ریلی کو چلانے کے لیے عوامی مورال، حوصلہ اور برداشت دیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے جس کی اس پورے احتجاجی عمل میں شدید قلت ہے جو کہ لوگوں کو تھکاوٹ اور بیزاری کی دلدل میں پھنسا کر اس احتجاجی تحریک سے دور لے جاسکتی ہے۔ بلوچ سماج کی کئی پرتیں ابھی تک اس تحریک سے کوسوں دور ہیں جنہیں اس تحریک کے ساتھ جوڑنے کیلئے کیمپ کی قیادت کے پاس کوئی پروگرام نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت مظلوم بلوچ عوام بیروزگاری، غربت، لاعلاجی، اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور یہ بلوچ مظلوم عوام اپنی معاشی مسائل کی وجہ سے ایسے تحریکوں سے بے خبر ہیں۔ قیادت کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کے اندر موجود محنت کش عوام کے مسائل کو اپنے مسائل کے ساتھ جوڑ لیں تاکہ وہ محنت کش اس کیمپ کی آواز کو اپنے مسائل کیساتھ جوڑتے ہوئے آگے بڑھیں۔
بلوچ روایتی قوم پرست قیادتیں اور مسنگ پرسنز کا مسئلہ
نیا پاکستان بننے کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم پرست پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی نے تحریک انصاف کے حکومت کے ساتھ چھ نکاتی معاہدہ کیا ہے، جس میں مسنگ پرسنز کا مسئلہ سب سے پہلے ہے۔ مگر نئے پاکستان کو بنے ہوئے اب 100 دن پورے ہو چکے ہیں مگر مسنگ پرسنز کے ایشو پر حکومت کی طرف سے کوئی سنجیدو اقدام اٹھانے کی نوبت تک نہیں آئی ہے۔ حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے مسنگ پرسنز کیمپ کے اندر لاپتہ بلوچوں کے لواحقین ان نام نہاد قوم پرست پارٹیوں کو مسترد کرتے ہوئے خود نکل پڑے ہیں۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ قوم پرست پارٹیاں اب صرف ہوا میں موجود ہیں عوام میں ان کا وجود کہیں پر بھی نظر نہیں آتا۔ جبکہ دوسری طرف اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ریاست نے خود اس پارٹی کو مسنگ پرسنز کے مسئلے کا طوق پہنایا تاکہ پشتون تحفظ موومنٹ کی طرز پرکوئی حقیقی تحریک نہ ابھر سکے۔ لیکن اب جب یہ احتجاجی کیمپ ایک تحریک کی شکل اختیار کرنے لگا ہے تو ان روایتی پارٹیوں نے بارہا کوشش کی کہ وہ اس کیمپ کی قیادت سنبھال لیں مگر نیچے سے دباؤ اور مزاحمت کی وجہ سے ایسا کرنے میں رکاوٹ آرہی ہیں جبکہ دوسری طرف کیمپ کی قیادت خود ان پارٹیوں سے بلوچ مسنگ پرسنز کے حوالے سے پروگرام کروانے کی درخواست کر رہی ہے جو کہ ان پارٹیوں کو مصنوعی سانس فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ جہاں تک روایتی پارٹیوں کی زوال پذیری کا مسئلہ ہے تو یہ عمل نہ صرف بلوچستان یا پاکستان کے اندر جاری ہے بلکہ پوری دنیا کے اندر پرانی روایتی پارٹیاں عوامی اعتماد کھوچکی ہیں، جس کی وجہ سے کوئی بھی روایتی پارٹیوں اب وہ بنیاد نہیں رکھتی جو کہ آج سے دس یا پندرہ سال پہلے رکھتی تھی۔ 2008ء کے عالمی سرمایہ دارانہ بحران کے بعد عہد تبدیل ہوچکا ہے اور نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں نئی نئی سیاسی تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔ ایسے میں ان روایتی قوم پرست پارٹیوں کے ذریعے پروگرامات منعقد کروانا وقت کا ضیاع ہے، اس سے بہتر ہے کہ کیمپ کی قیادت خود بلوچستان کے عوام کے اندر جاکر اپنے پیغام کو پہنچا ئے۔
اس وقت بلوچ قوم پرست قیادتیں ریاست کے ساتھ مظلوم بلوچ عوام پر جبر اور ظلم میں بلاواسطہ یا بلواسطہ شریک ہیں۔ گوادر کی صورتحال میں یہ حقیقت مزید واضح ہو جاتی ہے جہاں ایک طرف اسی فیصد لوگ ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہیں، جن کے پاس دوسرا متبادل معاشی ذریعہ نہیں ہے اوروہاں کے باسی لاعلاجی، جدید تعلیم اور پینے کے صاف پانی سمیت دیگر بنیادی ضروریات کے لیے ترس رہے ہیں، مگر بلوچ حکمران سی پیک میں بلوچستان کے حصے کی آڑ میں اپنا حصہ بٹورنے کے لئے لڑ رہے ہیں۔ حالانکہ اس سامراجی منصوبے کی وجہ سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان میں تباہی آرہی ہے۔ اس کا معمولی سا اظہار گوادر کے اندر رہنے والے ماہی گیروں کی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات سے کیا جاسکتا ہے۔
عہدِ حاضر اور قومی سوال کا حل
ہزاروں کیٹالونی باشندے آزادی کے حق میں احتجاج کرتے ہوئے
اس وقت پاکستان سمیت پوری دنیا کے اندر سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری کی وجہ سے قومی سوال میں شدت آرہی ہے۔ اس کا اظہار سپین میں کیٹالونیا، کردستان اور برطانیہ کے اندر آئرش اور سکاٹ لینڈ کے قومی سوال کی شدت میں اضافے کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں آباد مختلف مظلوم قومیتوں کے قومی مسئلے میں تیزی سے شدت آرہی ہے۔ پشتون تحفظ مومنٹ کا حالیہ ابھاربھی اسی شدت کااظہار ہے جس کی ایک وجہ بوسیدہ نظریات اور زوال پذیری کی شکار قوم پرست پارٹیوں کی غداری اور نااہلی تھی۔ اس تحریک نے جہاں پاکستانی ریاست کی چالیس سالہ پالیسیوں کو للکارا وہیں اس تحریک نے پورے پاکستان کے اندر مظلوم عوام اور مظلوم قومیتوں کو اپنے حقوق کے حوالے سے ایک نئی روح اور جرات عطا کی۔ گو کہ پشتون تحفظ مومنٹ بھی خود کو اب تک منظم نہیں کر سکی اور نہ ہی اس کے پاس کوئی واضح سیاسی پروگرام ہے، مگر اسکے باوجود اس تحریک نے پشتون سماج کے اندر بہت بڑی حمایت حاصل کی ہے۔ بلوچ مسنگ پرسنز کیمپ کی حالیہ تحریک کے ابھار میں بھی پشتون تحفظ موومنٹ کا اہم کردار ہے، جس نے سماج کے اندر ریاست کی طرف سے پھیلائے گئے خوف اور ڈر کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بلوچ سماج گذشتہ کئی دہائیوں سے ریاستی جبر کا شکار ہے اور ریاست کے اس جبر اور ظلم نے بلوچ مظلوم عوام کو سیاسی اور جمہوری حقوق کی جدوجہد سے بیگانہ کرتے ہوئے، اس کو خوف اور ڈر کی اتھا گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ قوم پرست قیادتوں کی غداریوں، غلط نظریات اور جدوجہد کے انتہائی غلط طریقہ کار نے بھی اس میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ گو کہ کوئی بھی شے زیادہ دیر تک جمود کی حالت میں نہیں رہ سکتی، اور ریاستی جبر اور دہشت گردی کے باوجود بھی آج بلوچ مظلوم عوام اپنے حقوق کے لئے تقریباً دس سال بعد ایک بار پھر جدوجہد اور مزاحمت میں مگن ہونے لگے ہیں۔ ڈرائنگ روم کے دانشوروں اور اصلاح پسندل لبرل لیفٹ کیلئے یہ سب ناممکن ہے۔ مگر مارکسیوں نے بہت پہلے کہا تھا کہ سماج کے اندر کبھی بھی جمود نہیں آ سکتا بلکہ وقتی طور پر کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے جو کہ کسی نہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔
آج جب سرمایہ داری اپنی طبعی زندگی پوری کرچکی ہے اور ایک بند گلی میں داخل ہو گئی ہے، جہاں پر دنیا بھر میں طبقاتی تضادات تیز تر ہوتے جا رہے ہیں اور امارت اور غربت کے درمیان خلیج وسیع ہو رہی ہے۔ ان سب وجوہات کی بنا پر دنیا بھر میں بھوک، ننگ، افلاس، غربت، دہشت گردی، بنیاد پرستی، جبر، بربریت اور تباہی میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کے اندر سرمایہ دارانہ نظام سے بد ظنی اور نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ سوشلزم کے حوالے سے باشعور ہو رہے ہیں جس سے حکمران خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ اس کا اظہار اس سے بھی ہوتا ہے کہ وائٹ ہاؤس نے سوشلزم کے’’ خطرے‘‘ سے نپٹنے کے لیے 76 صفحات پر مشتمل ڈاکومنٹ جاری کیا ہے جس میں کچھ خاص تو نہیں مگر اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عہد کی تبدیلی لوگوں کے شعورپر بھی اثرانداز ہورہی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے اندر مظلوم قومیتوں کو حق خودارادیت بشمول حق آزادی ملنا چاہیے۔ اور ہم مارکسی بنیادوں پر ان کی حمایت بھی کرتے ہیں مگر ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس موجودہ نظام کے اندر قومی سوال کو حل کرنا ناممکن ہے کیونکہ موجودہ نظام کے اندر وہ صلاحیت نہیں کہ وہ قوموں کو حقیقی آزادی دے سکے۔ اس کی واضح مثال کیٹالونیا اور کردستان کی قومی تحریکوں کی ہے جہاں پر لوگوں کی ایک بھاری اکثریت نے آزادانہ ریاست کا مطالبہ کیا مگر ایک طرف نظام کا خصی پن جبکہ دوسری طرف تنگ نظر قوم پرست قیادت کی غداری ان تحریکوں کی پسپائی کا باعث بنی۔ قومی سوال کے حل کے لیے مظلوم قومیتوں کی تحریکوں کو صوبہ، ملک، خطے اور پوری دنیا کے محنت کش طبقے کے ساتھ جڑنا ہوگا۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ۔
اس حوالے سے پشتون تحفظ مومنٹ کی مثال سامنے ہے جو کہ شروع میں انتہائی ترقی پسند کردار کی حامل تھی اور ریاست کے جبر کا مقابلہ کر رہی تھی۔ مگر ہم نے اس وقت بھی بارہا اپنے تحریروں میں کہاتھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کو جلدازجلد سیاسی پروگرام دیتے ہوئے تنظیمی سانچے میں خود کو ڈ ھالنا ہوگا اور ملک بھر کے محنت کش طبقے سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور آج پشتون تحفظ مومنٹ کے ان پانچ بنیادی مطالبات کی حالت دیکھی جا سکتی ہے کہ کون سے مطالبے پر کہاں تک عمل ہو ا ہے۔ اور دوسری طرف ریاست پشتون تحفظ مومنٹ کو نسلی بنیادوں تک محدود کرنا چاہتی تھی جو فریضہ تنگ نظر قوم پرست حواریوں نے سرانجام د یا ہے اور پشتون تحفظ موومنٹ کو غیر پارلیمانی پختون قومی تحریک بنا دیا ہے۔ آج پشتون تحفظ مومنٹ کے اندر عوامی طاقت ہے مگر سیاسی پروگرام، نظریہ اور تنظیم کی عدم موجودگی ہے، جس کی وجہ سے یہ عوامی طاقت زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتی۔ اسی طرح بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کو صرف مسنگ پرسنز کے مطالبات تک محدود کرنا سراسر غلطی ہے کیونکہ ان مطالبات کے ساتھ معاشرے کے چند لوگ جڑ سکتے ہیں مگر ایک وسیع سیاسی پروگرام کی صورت میں ہی یہ تحریک مزید وسعت اختیار کر سکتی ہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ عوام چاہے وہ پشتون تحفظ مومنٹ کے ساتھ ہو یا اس احتجاجی تحریک کے ساتھ وہ اپنی قیادت سے دو قدم آگے کھڑے ہوتے ہیں۔ گو کہ پشتون تحفظ موومنٹ اور بلوچ مسنگ پرسنز کیمپ کا موازنہ کرنا درست نہیں مگر دونوں تحریک کی محدودیت ایک جیسی ہے۔
بلوچستان کے اندر ریاستی جبر کی وجہ سے بلوچ سماج جن مشکلات، مسائل اور تکالیف کا سامنا کر رہا ہے، ان تمام مسائل کا حل موجود ہے مگر اس سیاسی حل کو معروضی حالات اور مخالف قوت کی طاقت کے ساتھ پرکھنا ہوگا۔ بلوچ آزادی پسند تحریک جو کہ جمہوری حق خودرادیت یا آزادی کے لیے لڑ رہی ہے جس کے لیے انہوں نے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ ان قربانیوں کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ مسلح جدوجہد انتہائی غلط حکمت عملی ہے۔ ریاست کیلئے بھی آسان ترین کام یہی ہوتا ہے کہ وہ ان سیاسی تحریکوں کو مسلح بغاوت میں دھکیل دے۔ اس طرح ریاست کو ان تحریکوں کو کچلنے کاجواز فراہم ہو جاتا ہے اور ریاست ان بغاوتوں کو آسانی سے کاؤنٹر کرلیتی ہے۔ سیاسی تحریکوں کے ذریعے ریاست کی ان جبری پالیسیوں کو عوام کے سامنے ایکسپوز کیا جاسکتا ہے اور عوام کی وسیع ترین اکثریت کو اپنے ساتھ جوڑتے ہوئے اپنی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں مظلوم قومیتوں کی جدوجہد کرنے والی تحریکوں کی نظر ہمیشہ مظلوم عوام کی جڑت اور جدوجہد کے بجائے عالمی سامراجی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ اور دیگر عالمی و علاقائی سامراجی قوتوں سے اخلاقی و سیاسی حمایت پر ہوتی ہے اور ان تحریکوں کی قیادتیں اس حمایت کی طلبگار بھی رہتی ہیں ۔ ان عوام دشمن قوتوں سے حمایت کا مطالبہ سب سے پہلیاس عوامی قوت کی توہین ہوتی ہے جو ان کے ساتھ ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ان سامراجی اداروں یا دیگر سامراجی قوتوں نے اپنے ممالک کے اندر مظلوم قومیتوں کیساتھ کونسا رویہ روا رکھا ہے۔ ان قوتوں کی عالمی طور پر مظلوم قومیتوں کو اپنے سامراجی عزائم کے لیے استعمال کرنے کی ایک لمبی تاریخ ہے۔اس میں عراق اور شام کے اندر کرد قومی تحریک کا امریکی سامراج کے عزائم کے لیے استعمال ہونا واضح مثال ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ قومی سوال کا حل اس وقت اس سرمایہ دارانہ اور سامراجی نظام کے خاتمے کے ساتھ منسلک ہے ۔ جب تک یہ نظام رہے گا تب تک قومی سوال موجود رہے گا۔کیونکہ سائنسی طور پر یہ بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی وہ اہلیت، قابلیت اور سکت کھو چکا ہے کہ وہ مظلوم قومیتوں کے حق خودارادیت یا حق آزادی کو تسلیم کر سکے بلکہ الٹا اپنی سامراجی عزائم کے دوام کے لیے ان مظلوم قومیتوں اور مظلوم طبقات پر جبر میں اضافے کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس ریاستی دہشت گردی، قومی جبراور طبقاتی استحصال سے چھٹکارا پانے کیلئے نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان سمیت اس پورے خطے کے محنت کش طبقے کو میدان میں نکلنا ہوگا ۔ اس تحریک کی قیادت کیلئے بالشویک پارٹی جیسی قیادت کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ کسی بھی انقلابی تحریک کو اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کیلئے انقلابی پارٹی کا موضوعی عنصر انتہائی لازمی جزو ہے۔ کسی انقلابی قیادت کے بغیر ہم نے عرب بہار، کیٹالونیا اور کردستان جیسی عوامی تحریکوں کی زوال پذیری دیکھی ہے۔ یوں انقلابی تحریک سوشلسٹ نظریات کی حامل ایک انقلابی پارٹی کی قیادت میں اس ظلم، جبر، ننگ، بھوک، افلاس، بے روزگاری، دہشت گردی اور انتہاپسندی سے چھٹکارا پاسکتیہے۔ اس انقلاب کی منزل ایک ایسے معاشرے کا قیام ہو گا جہاں پر کوئی کسی کا استحصال نہیں کر سکے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔