بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ روز بروز سنگین ہوتا جارہا ہے-بی ایچ آر او

125

وزیر اعظم جن افراد کی بازیابی کا دعوی کررہے ہے ان افراد کی لسٹ پیش کریں- بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن

بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ روز بروز سنگین ہوتا جارہا ہے

گذشتہ ایک ہفتے کے دوران کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں متعدد بلوچ طالب علموں کے علاوہ کئی بلوچ فرزندوں کو لاپتہ کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا جن کے بارے میں کچھ خبر نہیں کہ انہیں کس جرم کی پاداش میں یوں لاپتہ کردیا گیا۔

گذشتہ ہفتے سیکیورٹی اداروں نے کلی شیخاں کوئٹہ سے ایک طلباء تنظیم سے تعلق رکھنے والے بلوچ طالب علم جئیند بلوچ ولد عبدالقیوم کو انکے والد اور چھوٹے بھائی سمیت رات کے تین بجے گھر پر چھاپہ مار کر لاپتہ کردیا جبکہ اسی رات کو ایک اور بلوچ طالب علم امین ولد عبداللہ کو بروری روڈ سے اٹھا کر لاپتہ کردیا گیا۔ایک ہفتے کی مدت گزر جانے کے بعد بھی ان تینوں طالب علموں کا کچھ پتہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ بروز بدھ رات کے آٹھ بجے سیکیورٹی فورسز اور سادہ کپٹروں میں ملبوس اہلکاروں نے کوئٹہ کے علاقے سے بی ایس او سے تعلق رکھنے والے تین اور طالب علموں ظریف رند چنگیز بلوچ اور اورنگزیب بلوچ کو بھی لاپتہ کردیا جبکہ دالبندین سے کوئٹہ ڈگری کالج کے طالب علم آصف بلوچ کو انکے گھر میں چھاپہ مار کر لاپتہ کردیا اسکے علاوہ خضدار کے علاقے چمروک سے دو بھائی عادل زہری اور عامر زہری کو لاپتہ کردیا گیا عادل کو کچھ دیر بعد چھوڑ دیا گیا لیکن عامر کا تاحال کچھ پتہ نہیں خضدار کے علاقے کوشک سے بھی ایک بلوچ فرزند کو لاپتہ کردیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا ہم گذشتہ کئی سالوں سے اعلی حکومتی اداروں سمیت اعلی حکام سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر لاپتہ افراد نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے قانون کے مطابق سزا دیں یوں دس دس سال لاپتہ کرکے خود ریاست کی آئین اور بین الاقوامی قوانین کو پاؤں تلے نہ روندیں اور ان کے لواحقین کے زندگیوں کو جہنم نہ بنائے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ پینتیس دنوں سے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لاپتہ افراد کے اہلخانہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے پرامن ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے احتجاج کررہے ہیں کہ ہمارے پیاروں کو منظر عام پر لایا جائے لیکن اس مطالبے کو بار بار نظر انداز کرکے جبری گمشدگیوں کے سلسلے میں شدت کےساتھ اضافہ کیا جارہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے پر حکومت پاکستان کچھ بھی اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے اور انکی غیر ذمہ دارانہ عمل اور عدم دلچسپی کی وجہ سے لاپتہ افراد کا مسئلہ طول پکڑتا جارہا ہے جو بلوچستان کے امن کے لئے کسی طرح نیک شگون نہیں۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے اہلخانہ کی جانب سے ریلیاں اور احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے۔ وزیر اعلی بلوچستان وفاقی حکومت اور اعلی عدالتوں سے بھی اپیل کی گئی کہ وہ اس انسانی مسئلے پر اقدام اٹھا کر معصوم بچوں اور بچیوں ماں بہنوں کو انصاف فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں لیکن ان اعلی اداروں نے بھی ہمیں مکمل نظر انداز کردیا ہے سیکرٹری داخلہ بلوچستان کی جانب سے ہمیں یقین دہانی کرائی گئی کہ آپ اپنا دھرنا ختم کردیں تو ہم بیس دنوں کے اندر لاپتہ افراد کا پتا لگا کر انکی بازیابی کے لئے اقدامات کرینگے لیکن سیکرٹری داخلہ کی یقین دہانی کے بعد بھی کئی بلوچ فرزند لاپتہ کردئیے گئے ہیں جو خود حکومتی اداروں کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے دئیے گئے بیان پر ان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ لاپتہ افراد کے کیمپ میں اہلخانہ کو ان افراد کی لسٹیں فراہم کریں جن کو بازیاب کیا گیا ہے تاکہ اہلخانہ کو معلوم ہوسکیں کہ انکے پیارے کہاں ہے جس دن ملک کے وزیر اعظم کا یہ بیان سامنے آیا اسی دن سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں تین بلوچ فرزند لاپتہ کئے گئے ہیں جو اس بیان کے برخلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایک بار پھر وزیر اعظم پاکستان، چیف جسٹس آف پاکستان ، وفاقی وزراء بلوچستان کے وزیر اعلی سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں ۔