بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ بلوچستان کی ترقی اور سماجی ارتقاء کے سفر کو 70سالوں سے روکا گیا ہے عوامی رائے کو پسند نہ کرنے والی قوت ملک کے60فیصد رقبہ پر آباد لوگوں کے وجود سے انکاری ہے۔
بلوچستان سے لوگ لاپتہ ہورہے ہیں بے اختیار حکومت کو ریموٹ کنٹرول سے چلایا جارہا ہے ۔ صوبے کی حقیقی قیادت اپنے قومی وجوداختیار اور وسائل کے دفاع میں مسلسل تکالیف کاٹ رہی ہے۔
بلوچستان کی کیپسٹی بلڈنگ پانچ سالوں میں ممکن نہیں گزشتہ روز نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں نوابزادہ لشکری رئیسانی کا مزید کہنا تھاکہ70سالوں میں حقوق مانگنے کی پاداش میں بلوچستان کی حقیقی سیاسی و سماجی نمائندوں کی ٹارگٹ کلنگ کرکے ان کو یا تو مارا گیا ہے یا ان پر جعلی مقدمات قائم کرکے جیلوں میں ڈال کاذیتیں دی گئیں ۔
صوبے کے حقیقی سیاسی وسماجی نمائندوں سے رروارکھا جانیوالا یہ عمل اس ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جوپاکستان کا60فیصد رقبہ پر آباد لوگوں کے قومی وجو کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے بلوچستان کی حقیقی قیادت اپنے قومی وجود قومی اختیار اور وسائل کے دفاع میں مسلسل تکالیف کاٹنے کے باوجود صوبے کے وسائل کے حصول اوردفاع سے پیچھے نہیں ہٹیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتداء سے ہی صوبے کی قیادت کو ختم کرنے کی کوششیں کرنے والے 1990ء کے بعد سے ہماری سماجی و تاریخی ساخت برباد کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
2010میں جب پاکستان کی آئین کو ری وزٹ کیا گیا اور9ماہ کی مسلسل محنت کے بعد2010جب ہم اٹھارویں آئینی ترمیم پر دستخط کئے اسی دن آئین کی خلاف ورزی اور بنیادی حقوق کو پامال کیا گیاجس پر میں نے اٹھارویں آئینی ترمیم میں بطور رکن بہترین خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز لینے سے احتجاجاً انکار کیا ۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی کارکن ہونے کے ناطے میں سمجھتا ہوں کہ مسلسل سیاسی جدوجہد کرنے سے ہی ہم اپنے اہداف کی طرف جائیں گے ہماری کوشش ہے کہ ایک آئینی جدوجہد کے ذریعے چھوٹے صوبوں کو حقوق دلائیں ۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جنرل)ر(مشرف اور ضیاء الحق نے ہمارے قدرتی وسائل کوریکوڈک اور گوادر کی شکل میں بیچ کر صوبے کے لوگوں کا استحصال کیا اس سرزمین کے بچے ننگے پیر گھوم رہے ہیں بلوچستان میں کرپشن کے بڑے کیسز میں ملوث ان لوگوں کو نوازا گیا ہے جو بلوچستان کی پسماندگی میں اضافہ کا باعث بنے ہیں ۔
عموماً لوگ کہتے ہیں کہ بلوچستان کی پسماندگی کیوں ختم نہیں ہورہی میں دلائل کے ساتھ کہتا ہوں کہ بلوچستان کو پیسے نہیں ملے ہمارے وسائل کو غصب کیا گیا ہے1954ء کو ہمیں گیس رائلٹی نہیں ملی اور این ایف سی ایوارڈ میں جو حصہ ہے وہ نہیں مل رہا اس کا جواب وفاق دے گا آج نہیں تو کل بلوچستان کے غیرت مند سیاسی کارکن وفاق سے ضرور پوچھیں گے کہ1940کی قرارداد کولتاڑکر ون یونٹ کے ذریعے بلوچستان کو ایک کمشنرکے حوالے کیا گیا ۔
این ایف سی ایوارڈ2010میں آیا اور2013میں نئے الیکشن ہوئے جب نواب اسلم کی حکومت ختم ہوئی اس وقت بلوچستان حکومت کے خزانہ میں30ارب سر پلس جمع تھا ۔ حکومت کو درپیش معاشی بحران کا جواب ڈاکٹر مالک ، سردار ثناء اللہ اور قدوس بزنجو دینگے کہ وہ30ارب روپے کہاں گئے ۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ58ٹو بی کے بعد منصوعی بحران پیدا کرکے جمہوری حکومتوں کو نہیں چلنے دیاگیا امن و امان کا مسئلہ پیدا کرکے جعلی فرقہ واریت ، ڈیتھ اسکواڈ کے ذزیعے لوگوں کو قتل کرانے کی کوشش کی گئی ۔
کوئٹہ میں سیٹلروں اور بلوچوں میں تنازعہ پیدا کرکے کئی ارب روپے وفاقی سیکورٹی اداروں کو دیئے گئے جس سے بلوچستان میں ترقیاتی معاملات آگے نہیں بڑھے18ویں ترمیم کو ختم کرنے والی وہ ذہنیت جس نے اس ملک کے عوام کی طاقت ،ووٹ کی پرچی کے تقدس کو عزت دینے کی بجائے اس کوپامال کرنے کی ہمیشہ کوشش کی وہ یہ الزام لگاتے ہیں ۔
بلوچستان میں کیپسٹی بلڈنگ نہیں کی گئی میں وفاق اور اس کے تمام اداروں اور سیاسی پارٹیوں سے پوچھتا ہوں کہ وفاق نے71سال میں کیوں کیپسٹی بلڈنگ نہیں کی اسٹیل مل کو کسی بلوچ سردار نے نہیں چلایا اس کیبھٹی سے اٹھنے والا دھواں بندہونے کا ذمہ دار کون ہے ۔
ریلوے نہیں چلا رہاتین ہزار بلین روپے کا سرکلر ڈیتھ ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ بلوچستان کے بیٹرنیس کو کم کرکے ستر سال سے ہماری ترقی اور ہمارے سماجی ارتکاء کے سفرکو روکا گیا ہے ۔
اس کا آغاز کسی نہ کسی طریقے سے ہو اس کیلئے ہم نے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے وفاق میں پی ٹی آئی کو اپنے چھ نکات دیئے ہیں جس پر وفاقی حکومت قانونی ، انتظامی اور آئینی عملدرآمد کرے تاکہ بلوچستان میں جو دوری ہے اس میں کمی آسکے اب گیند وفاق کے کورٹ میں ہے ۔
پاکستان کی پارلیمنٹ کے کورٹ میں ہے اور وہ لوگ جو پارلیمنٹ کا احترام نہیں کرتے وہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے لوگ پارلیمنٹ سے دلبرداشتہ ہوکر کوئی اور راستہ تلاش کریں جس کے بعد بد ترین جبر اور ظلم سے ان کی سرکوبی کی جائے مگر بی این پی نے ایک مرتبہ پھر ہاتھ بڑھایا ہے جس سے صوبے میں ترقی کا آغاز بھی ہوسکے گا اور جو دوری ہے بلوچستان اور وفاق میں اسے کم کرنے میں ہم کسی حد تک کامیاب ہوجائیں گے ۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے جب تک ایک کمیٹی قائم نہیں ہوگی اور اس چھ نکات پر رائے نہیں دی جائے گی تب تک میں یہ ماننے کو تیار نہیں کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوگیا ہے کچھ لوگ اپنے گھروں میں آئے ہونگے مگر اس سے دگنے لوگ واپس بھی لاپتہ ہوئے ہیں جب تک ایک آئینی طریقے سے اس کمیٹی میں لاپتہ افراد کی فہرست نہیں آئے گی تب تک کوئی مان نہیں سکتا ۔
بی این پی کی کوشش ہے کہ بلوچستان میں تمام اقوام کی یکساں نمائندگی کی جائے اور ہماری پشتون قوم سے بھی امید ہے کہ وہ ہمارے موقف میں ہمارا ساتھ دینگے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت کو ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے چلایا جارہا ہے بی این پی اپوزیشن میں بیٹھ کر بلوچستان کے لوگوں کو درپیش مسائل کو بہتر طریقے سے اجاگر کرسکتی ہے-