براس سے وابسطہ قومی امیدیں
شاھبیگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
۳۰ اکتوبر ۲۰۱۷ کو بننے والا اشتراک عمل، جس میں بی ایل اے اور بی ایل ایف نے اتحاد و یکجہتی کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مشترکہ دشمن کیخلاف مشترکہ طور پر جدوجہد کے فلسفے پر گامزن ہوکر اپنی صفوں میں موجود دوریوں، اختلافوں، دوریوں اور غلط فہمیوں کو دور کرنے، آپس میں ایک بہتر تنظیمی رشتوں کے قیام اور درست سمت کی جانب گامزن ہونے کی خاطر اپنے اتحاد کے ذریعے ایک طرف مشترکہ دشمن کو کاری ضرب لگانے کے عمل کو شروع کیا تو دوسری جانب ان تمام پیچیدہ مسائل پر گفت و شنید ایک دوسرے کے موقف کو سننے اس کا احترام کرنے پھر اپنا رائے دینے اور مسائل کو حل کی طرف لیجانے کا عمل شروع ہوا۔
دراصل بلوچ قومی تحریک میں اتحاد و اشتراک کی باتیں یا سنگل پارٹی کے قیام کی مانگ کوئی نئی بات یا اچانک سے لگنے والا نعرہ نہیں، موجودہ قومی تحریک کی بنیاد سے ہی بلوچ رہنماؤں خصوصاً شہید نواب اکبر خان بگٹی کی تحریک میں شمولیت کے بعد وہ ہمیشہ مشترکہ طور پر جدوجہد کرنے سنگل پارٹی کے قیام کی بات کرتے انکی شہادت کے بعد انکے سوچ کو سیاسی حوالے سے ایک حد تک کامیابی کی جانب لے جانے کی کوشش شہید غلام محمد، شہید سنگت ثناء، شہید شیر محمد اور دیگر رہنماؤں نے ایک سیاسی اشتراک بی این ایف کی صورت میں کی تھی (بی این ایف کا قیام اس اتحاد کی کامیابیاں اور بعدازاں اس میں پیدا کی جانے والی دوریاں یہاں زیربحث نہیں)۔ سیاسی حوالے سے اتحاد ہونے کے باوجود بھی بلوچ مسلح تنظیموں میں قربت یا ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے بلوچ تحریک گذشہ کچھ عرصوں میں کافی حد تک ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار ہوچکا تھا۔ جس کی وجہ سے دشمن بھر پور طور پر فائدہ اٹھا کر بلوچ استحصال میں تیزی لانے سمیت بلوچ نسل کشی کو جاری رکھے ہوئے تھا۔ جب حالات اس نہج پر پہنچے کہ دشمن اس خوش فہمی میں مبتلا ہونے لگا کہ اب ہم نے بلوچوں کی آواز کو دبا دیا ہے اب تحریک اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ تبھی بلوچ مزاحمت کاروں نے ایک ایسا فیصلہ کیا جسے لکھتے آنے والے وقتوں میں قومیں اپنی تحریکوں میں اور مورخ اپنی داستانوں میں بلوچ قومی امنگوں کی مطابق کیئے جانے والے ایک اہم فیصلہ قرار دیکر یہ ضرور کہے گا کہ بلوچوں نے دشمن کی سازش کو ایک نازک موڑ پر ناکام کرکے اپنی تحریک میں روح پھونک دی تھی، جب دشمن کے مطابق بلوچ اور بلوچ قومی تحریک ختم ہوچکی ہے۔
بی ایل ایف و بی ایل اے کے اشتراک سے متاثر ہوکر اور انکے عملی کاروائیوں کو دیکھ کر بیس اپریل دو ہزار اٹھارہ کو بی آر جی نے بھی اس اشتراک عمل میں شمولیت اختیار کرکے بلوچ مزاحمت کو مزید توانا کرنے میں اہم کردار کرنے سمیت قوم دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے بلوچ قومی یکجہتی کا عملی مثال قائم کیا۔ اس اشتراک عمل کے زریعے دشمن پر کافی خطرناک حملے ہوئے اور کافی جگہوں پر دشمن کو بری طرح سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
دس نومبر دو ہزار اٹھارہ کو وہ تاریخی اعلان کیا گیا جس کی پوری بلوچ قوم کو بےصبری سے انتظار تھا یعنی کے اس اشتراک عمل کو باقائدہ طور پر ایک تنظیمی صورت دیا گیا جس میں تنظیم کا نام براس (بلوچ راجی آجوئیِ سنگر) اور تنظیم کے ترجمان کا نام بلوچ خان رکھا گیا۔ یہ وہ اقدام تھا جس نے قوم میں موجود ان تمام شکوک شبہات کو بھی ختم کردیا کہ شاید اس اتحاد کو پہلے کی طرح جذباتی پن یا کسی کی پسند یا نا پسند کا نظر نہ ہونا پڑجائے گا۔ مگر براس سے منسلک تنظیمیں، رہنماء، ساتھی اور ہمدرد بلکل اس پالیسی پر گامزن ہیں کہ ہر وہ بلوچ جو اتحاد، یکجہتی، اشتراک و قومی حوالے سے مشترکہ طور پر جدوجہد کرنے پر متفق ہوں ہم انکے ساتھ قربت رکھنے اپنے تمام مسائل کو گفت و شنید سے حل کرنے اور بہتری کی طرف بڑھنے کیلئے تیار ہیں۔
اب چونکہ براس اپنی تنظیمی حیثیت اور اسکی نوعیت واضح کرچکا ہے اور بلوچ قوم میں انہیں ملنے والی پذیرائی سمیت دشمن پر انکا خطرناک حملہ براس پر اب مزید ذمہ داریاں سونپ چکی ہے۔ اب براس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بلوچ عوام کے اس امید اور خواہش جو کہ سنگل پارٹی کی ہے کو پورا کرنے کی خاطر مزید تنظیموں اور ساتھیوں کیساتھ روابط تیز کرکے ان سے گفت و شنید کرنے اپنے درمیان کے اختلافات پر گفتگو کرنے، انکو سننے سمجھنے اور آپسی مل بیٹھ کر حل کرکے آگے بڑھنے والے فلسفے پر ہی کاربند ہو کر ہی کامیابی و کامرانی حاصل کی جاسکتی ہے۔
اس ضمن میں بلوچ مسلح تنظیم خصوصی طور پر بی آر اے، یو بی اے اور لشکر بلوچستان کے ساتھیوں سے رابطہ قائم کرکے انہیں بھی مشترکہ دشمن کیخلاف مشترکہ طور پر جدوجہد کرنے کی دعوت دی جائے۔ کیونکہ بدلتے ہوئے حالات ریاست کی بربریت و چین و سعودی سمیت دیگر بڑی طاقتوں سے چھٹکارہ اور سرزمین کی آزادی کے خواب کو حقیقت میں بدلنا تب ہی ممکن ہوگا، جب بلوچ ایک قومی فوج کا قیام عمل میں لاکر دشمن کو بلوچ سرزمین سے اپنے طاقت کی بل پر یہاں سے بھگانے میں کامیاب ہونگے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔