ایک محب وطن ساتھی – میرین بلوچ

302

ایک محب وطن ساتھی

میرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی تحاریک پر نظر ڈالیں تو ہمیں کئی ایسے نوجوان دیکھنے کو ملتے ہیں، جو اپنے سروں کو سروں سے ٹکراتے ہیں، جو اپنی قوم کی بقاء و سلامتی اور آزادی کی خاطر اپنے جانوں کو قربان کر دیتے ہیں اور ایک نئی سورج کا آغاز کرتے ہیں۔

ایک دن میرے ہاتھ میں قلم تھا، میں ایک بڑی سوچ کی گہرائی میں تھا، میں قلم کے قید میں تھا کہ پتہ نہیں میں کیا لکھوں اور کن الفاظ سے آپ کا داستان بیان کروں۔ آج میں ایک ایسے ساتھی کی داستان لکھ رہا ہوں جس کے بارے میں میرے پاس کم الفاظ ہیں. جتنا بھی لکھوں اتناہی کم۔

آپ کا نام تحریک سے جُڑا ہوا ہے، جس نے اپنے مادر وطن کی خاطر اپنی جان کو قربان کیا اور اپنے مادر وطن پر شہید ہوگیا اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے، جو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سورج بن کر رہ گئے۔

جی ہاں آج میں ایک ایسے محب وطن ساتھی کی داستان لکھ رہا ہوں، جنہوں نے اپنی مادر وطن کیلئے ہر مشکل راستے کو بآسانی سے اختیار کیا، جس کا نام شہید سلیمان عرفءِ تلار بلوچ تھا، جو 3دسمبر 1993ء کو واجہ دُراہ کے گھر آبسر کولوائی بازار کیچ میں پیدا ہوئے۔ سلیمان بلوچ نے ابتدائی تعلیم مڈل اسکول کہدہ یوسف محلہ آبسر کولوائی بازار کیچ سے اور میٹرک ہائی اسکول آبسر کیچ سے اچھے نمبروں سے پاس کیا اور مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے عطاشاد ڈگری کالج کیچ چلے گئے جہاں 2009ء کو ایف اے میں زیر تعلیم تھے، جہاں شہید رضا جہانگیر سے آپکا پہلا ملاقات ہوا، جہاں رضاجہانگیر B A کا امتحان دینے کیلئے عطاشاد ڈگری کالج کیچ آئے ہوئے تھے، اسی وجہ سے وہاں BSO A آزاد کے دوستوں نے ایک لیکچر پروگرام رکھا تھا۔ جو (بغوان) ماں ہوتی ہے منعقد ہوا۔

جس سے رضا جہانگیر کو خطاب کرنا تھا، رضا جہانگیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماں دو ہوتے ہیں یعنی ایک ماں تو نو مہینے پیٹ میں پال پوس کر آپکو بڑا کرتا ہے اور آپکی نشونما اور ساری درد اور تکلیف کو برداشت کرتی ہے لیکن ایک دن اگر آپ کو کام کرنے کو کہتی ہے تو اگر آپ نہ کریں وہ آپ پر طنز کرے گی کہ میں نے آپکو پال پوس کر بڑا کیا لیکن آج پھر بھی آپ نے میری بات کو نہیں مانا، دوسری ماں آپکا سرزمین, جہاں آپ گھومتے پھرتے ہو، اچھے اور بُرے کام کرتے ہو، سب کچھ کرتے ہیں لیکن پھر بھی آپ پر کبھی بھی طنز نہیں کرے گی کہ آپ نے یہ کیا وہ کیا، کیونکہ یہ آپ کا حقیقی ماں ہوتا ہے، جو آپ پر کبھی بھی طنز نہیں کرے گا، ہمیں اس دھرتی ماں کیلئے جدوجہد کرنا ہوگا، جو ہمارے پیارے نوجوان، بھائیوں اور بہنوں نے جدوجہد کیا ہے، انکا آج سر فخر سے بلند ہے اور اسی راستے پر ہم گامزن ہیں، آج ہمارے پیارے نوجوان بھائی اور پیارے بہنوں کے پیر زخموں سے بھرے پڑے ہیں، جو بھوک اور پیاس سب کچھ برداشت کر رہے ہیں۔

آج ہمارے نوجوان اپنے وطن پر فدائی ہیں، آج تحریک میں ہمیں بڑی بڑی داستانیں ملتی ہیں، جس میں شہید مجید نامی نوجوان نے ذوالفقار علی بھٹو پر فدائی حملہ کیا اور دوسرا فدائی حملہ شہید دِرویش نے شفیق مینگل پر کیا تھا اور تیسرا فدائی حملہ جو شہید ریحان نے چینی انجنیئروں پر کیا اور چوتھا فدائی حملہ وطن کے تین نوجوانوں نے چینی قونصلیٹ پر کیا۔ جس میں شہید ازل خان, شہید رازق بلوچ اور شہید رئیس بلوچ نے چینی قونصلیٹ پر حملہ کرتے ہوئے، ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پوری تاریخ میں امر ہوگئے، جس میں ایک ایسا لیڈر جو سب سے پہلے کھٹن اور سخت حالات میں سب سے پہلے اپنے کھوئے ہوئے

جگر کا ٹکڑا اپنے کارکنوں اور ساتھیوں اور قوم پر قربان کر دیتا ہے، ایسے رہنما ہی عظیم نظریاتی سنگت پیدا کرتے ہیں، جو لالچ بغض اور حسد سے پاک ہوں۔

شہید سلیمان عرف تلار بلوچ بھی اپنے وطن کا دیوانہ تھا، میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں آپکا داستاں اچھی طرح بیان کروں جتنا بھی لکھوں تو اتنا ہی کم۔

آپ نے اپنی قوم کی تنگ دستی, غریبی لاچاری اور بے بسی کو دیکھ کر بلوچ نیشنل مومنٹ B N M میں شمولیت اختیار کر لیا آپ پورے دن رات پارٹی کے کاموں میں مصروف تھے، ایک دن شہید علی جان کو ایک کام کے سلسلے میں ایک علاقے جانا پڑا تو آپ نے علاقے کی پوری ذمہ داری نبھایا اور 2015 میں آپ اپنے علاقے کے صدر منتخب ہوئے، آپ نے اچھی طرح اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، وقت گذرتا رہا، آپکا جدوجہد جاری رہا۔

پورے تربت میں ایک انقلاب آگیا، ایک نئی سورج کا آغاز ہوا 2016 میں آپ ریجنل صدر منتخب ہوئے، آپ کی جدوجہد نے دُشمن کو سرین پروش کیا دُشمن کو برداشت نہ ہوا۔

8/3/2017کے دن کو ریاستی فوج نے آپکے گھر کو گھیرے میں لیا اور ریاستی فوج نے آپکے گھر میں گُھس کر عورتوں اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ جس میں آپکے پاس دو 9MN پستول کے باوجود اور ریاستی فوج کے پاس کلاشنکوف, G3,RPG جیسے کئی طرح کے ہتھیار تھے لیکن پھر بھی آپ نے ثابت کیا کہ ایک انقلابی ساتھی اپنی قوم کی بقاء و سلامتی اور آزادی کی خاطر اپنا سر کٹا سکتا ہے لیکن سر جُھکا نہیں سکتا، آپ اپنے وطن کے دیوانے تھے اور آپ نے ثابت کیا آپ ایک محب وطن ساتھی تھے، وہ پاگل جو اپنی وطن کا دیوانہ, عاشق جو اپنی وطن کیلئے کوئی بھی طریقہ کار سے پیچھے نہیں موڑتا اور اسی طرح ریاستی فوج نے اندھا دھند فائرنگ کی، جس میں شہید سلیمان بلوچ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دائمی نمیراں و امر ہوگئے۔

آپ ایک آئیڈیل جہد کار تھے، آپکے بہادری اور ہمت دلی کو دیکھ کر میں آپکو خراج تحسین اور سرخ سلام پیش کرتا ہوں

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔