ایکشن کمیٹی اخباری صنعت بلوچستان کی جانب سے احتجاج

181

اخبار مارکیٹ کو گذشتہ 3 سال سے گرانٹ جاری نہیں کی جارہی، اخبارات و جرائد کے اشتہارات کی بھی پسند ناپسند کی بنیاد پر بندر بانٹ کی جارہی ہیں۔

بلوچستان اخباری صنعت سے وابسطہ افراد کا احتجاجی مظاہرہ و ریلی، اخبارات کی ترسیل بند کرنے کا عندیہ

ایکشن کمیٹی اخباری صنعت بلوچستان نے وزیراعلیٰ کے پریس سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ کے تبادلے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے گھروں کے چولھے ایک مخصوص لابی کے کہنے پر بجھائے جارہے ہیں۔ یہ وہی عناصر ہیں جو ہر دور میں حکومت اور مقامی پریس کے مابین غلط فہمیاں پھیلا کر اپنے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔ سات ماہ سے بقایا جات کی عدم ادائیگی نے بلوچستان کی اخباری صنعت کی کمر ٹیڑھی کردی ہے، اخبار مارکیٹ کو گذشتہ 3 سال سے گرانٹ جاری نہیں کی جارہی ہے۔ اخبارات و جرائد کے اشتہارات کی بھی پسند ناپسند کی بنیاد پر بندر بانٹ جاری ہے۔ ان خیالات کا اظہارایکشن کمیٹی اخباری صنعت بلوچستان کے چیئرمین رشید بیگ، جنرل سیکرٹری مرتضیٰ ترین، ڈاکٹر ناشناس لہڑی، انجمن اتحاد اخبار فروشاں کے صوبائی صدر عبدالنبی سمالانی اور آل پاکستان اخبار فروش فیڈریشن کے مرکزی صدر میر احمد راسکو وال نے ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ کے دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرے اور دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ایکشن کمیٹی اخباری صنعت بلوچستان کے زیراہتمام کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ مسلسل آٹھویں روز بھی جاری رہا۔ پیر کو پریس کلب کوئٹہ کے سامنے منعقدہ احتجاجی کیمپ سے ایک ریلی نکالی گئی جس میں شرکاء نے بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے اور مطالبات درج تھے۔ ریلی جناح روڈ سے ہوتی ہوئی شاہراہ عدالت پر واقع ڈی جی پی آر آفس کے سامنے پہنچی جہاں احتجاجی مظاہرہ اور دھرنا دیا گیا۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ایکشن کمیٹی رہنماو کا کہنا تھا کہ مذموم سازش کے تحت صوبے کے مقامی پریس کو نشانہ بنایا جارہا ہے ایسے کسی اقدام کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائیگی جس میں مقامی صنعت کو نقصان ہو۔

انہوں نے کہا کہ مطالبات کے تسلیم ہونے تک کسی صورت احتجاجی کیمپ ختم نہیں کیا جائیگا۔ آج انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جارہاہے اور ہم اپنے ہی صوبے میں اپنے حقوق کیلئے احتجاج اور دھرنا دے کر بیٹھے ہیں۔ چند افسران اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے ہزاروں افراد کو بےروزگار کرنے پر تلے ہوئے ہیں جس کی انہیں قطعی اجازت نہیں دی جائیگی اور اخباری صنعت کی بقاء کیلئے آخری حد تک جائینگے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت مقامی پریس کو درپیش مسائل کے حل کیلئے چپ کا روزہ تورٹے ہوئے اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اور مقامی صنعت بندش سے بچانے کیلئے اپنا عملی کردار ادا کرے۔

مقررین نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے پریس سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ کے ساتھ اخباری صنعت کی کوئی ذاتی خلش نہیں ان افسران اور ان کے چہیتوں کی وجہ سے مقامی اخباری صنعت اپنی بقاء کی جنگ لڑنے پر مجبور ہوچکی ہے لہٰذا وزیراعلیٰ بلوچستان ان افسران کے تبادلے اور اخبار مارکیٹ کی روکی گئی گرانٹ کے نوٹیفکیشن فوری جاری کرے تاکہ ان افسران کی وجہ سے مقامی پریس اور صوبائی حکومت کے درمیان پیدا ہونیوالی دوریاں ختم ہوسکیں۔ آج مقامی صنعت سے وابستہ مدیران اور ورکر مجبور ہیں کہ وہ ناانصافیوں خصوصاً اشتہارات کی غیر منصفانہ تقسیم اور مقامیت کو نظر انداز کرنے کی پالیسی کیخلاف سڑکوں پر آئے ہیں، حکومت مقامی پریس کو درپیش مسائل کے حل کیلئے مقامی اخبارات و جرائد کو اہمیت دے جیسا کہ دیگر صوبوں میں اہمیت دی جاتی ہے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو تحریک میں مزید شدت لائی جائیگی اور مرحلہ وار احتجاج کیا جائیگا اور انجمن اتحاد اخبار فروشاں کی جانب سے صوبے بھرمیں اخبارات کی ترسیل بھی روک دی جائیگی جس کی تمام تر ذمہ داری انہی افسران پر عائد ہوگی جن کی وجہ سے مقامی اخباری صنعت سراپا احتجاج ہیں۔