اگر کسی کی موت چاہئے تو اسکی روح کو موت دیں – ظفر رند

240

اگر کسی کی موت چاہئے تو اسکی روح کو موت دیں

ظفر رند

دی بلوچستان پوسٹ

وقت جوں جوں بڑھتا اور گذرتا گیا دکھ اور درد کے سفر میں اضافہ کرتے گئے اور بےبس یادیں صرف یاد ہوکر رہ جاتے ہیں۔ جیئند جان نہ صرف ایک کامریڈ تھا بلکہ ایک درد بانٹنے والا ایک گموار سنگت بھی تھے، ۲۹ نومبر کی رات آخری دفعہ رات ۱۱ بجے جیئند سے ملاقات ہوئی تھی اور اس نے وعدہ کیا تھا کہ میں صبح شے حق جان اور میروائس جان کو اسکول چھوڈ کر ۱۰ بجے آونگا مگر وہ صبح آج ۱۷ دن گذرنے کے بعد بھی نہیں ہوئی۔ یہ دردناک خبر سننا ہم سب دوستوں کہ لئے یقیناً نہ قابل برداشت تھا۔ جیئند جان نہ صرف ہمارا اچھا دوست بلکہ وہ ہمارے نظریاتی اورانقلابی کارواں بی ایس او کا سنئیر جوائنٹ سکیٹری بھی ہے مگر وقت کی ضرورت اور طاقتور قوتوں نے آج سے ۱۷ دن پہلے ست اسے حبس بے جاہ میں رکھا ہے اور تا حال اس کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے۔

اسکے کارواں کے ہمسفروں نے جیئند بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف ۱ تاریخ کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جیئند بلوچ کی جبری گمشدگی کی مذمت کی اور اسکی بازیابی کا مطالبہ کیا مگر جیئند بازیاب نہ ہوسکا، مجبورً جیئند جان کے چھوٹے بھائی اسکول کی جگہ روڈوں پر آنے میں مجبور ہوئے۔ جیئند بلوچ کی اکلوتی بہن بانک مہرنگ بلوچ پہلی دفعہ گھر سے نکلنے پر مجبور ہوئی کوئٹہ پریس کلب کے سامنے مسنگ پرسنز کے کیمپ میں جیئند اور حسنین کا پوسٹر لیکر بیٹھی رہیں اور اپنے بھائیوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

وہ پہلی دفعہ گھر کی چار دیواری کے باہر کمیرے کے سامنے آئی اور اپنی بھائیوں کے بازیابی کے لیے سب سے مدد مانگی اور اپنا پیغام لوگوں تک پہنچاتی رہیں۔ ۵ تاریخ کو جیئند بلوچ کی بازیابی کے لیے مینگل چوک سے لیکر پریس کلب تک ایک ریلی نکالنے کا اعلان کیا گیا اور سب سے شرکت کی اپیل کی جیئند بلوچ کے کارواں کے ساتھی سمیت فیملی اور دیگر طلباء تنظمیوں نے شرکت کی اور جیئند بلوچ کی بازیابی کا مطالبہ کیا ریلی ختم ہونے کے بعد سب اپنے گھر واپس یہ امید لیکر گھر پہنچے کہ جیئند بلوچ گھر پہنچ جائیگا کسی کے وہم میں یہ بات نہیں تھی کہ تاریخ نے ایک اور جبر کرنے کی سوجھی۔ یہ جیئند بلوچ کے کاروان کے سپاہی بی ایس او کے چئیرمین ظریف رند، جنرل سیکریٹری چنگیز بلوچ، انفارمیشن سیکریٹری اورنگ زیب بلوچ بھی اس جبر کا ایندھن بن گئے اور طاقتور قوتیں ایک اور جبر کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ نوجوانوں کے لیڈرز کو جبری طور پر ماورائے عدالت و قانون اغوا کر لیا گیا۔

آج ۱۲ دن ہوگئے وہ بھی زندانوں میں اذیت ناک زندگی گذار رہے ہیں اسی دوران ایک اور بہن روڈوں پر آنے پہ مجبور ہوگئی جس نے نہ پریس کلب دیکھا تھا نہ اس جبر کے بارے میں علم تھا مگر حالات کی لپیٹ میں آکر بانک مہربانو بلوچ چنگیز بلوچ اور اسکے دوستوں کی تصویر لیکر پہلی دفعہ روڈوں پر اپنے بھائیوں کے پوسٹر لیکر بیٹھی رہی۔ اپنے بھائیوں کی تلاش میں آج تک روڈوں پر بیٹھی ہے مگر ان کو سننے والا کوئی نہیں ملتا کوئٹہ تک یہ آواز محدود نہ رہی بلکہ پاکستان کے ہر گلی گوچوں اور بیرونی ملکوں تک انکے لیے آواز اٹھائی گئی مگر سننے والا کوئی نہیں ملتا۔

۱۷ دن تک روڈوں پر بیٹھنے والے لوگوں کو آج تک سننے والا کوئی نہیں اور انکے پیارے آج تک گھر واپس نہیں لوٹے اس تاریخی جبر اور نہ انصافی نے نہ صرف ظریف رند، چنگیز بلوچ جیئند بلوچ ،اورنگ زیب بلوچ کو اپنے لپیٹ میں لیا بلکہ بلوچ سوسائٹی میں ایک مایوسی طاری کردی اور تعلیم سے دور دکھیل دیا۔ ایک بہت بڑے بلوچی انقلابی شاعر نے عرض کیا ہے کہ

مرگ ء- منی لوٹے تو ارواہ بکش

کوش ء- منی باڈاھے مھر ءِ واہگ ءَ پاہو بدے

من پہ مرگ گار نباں

مہراں کے آوار نباں

کہ اگر کسی کی موت چاہتے ہو تو اس کی روح کو موت دو

تاریخ نے ہمیشہ یہ بات واضح کی ہیکہ جبر اور ظلم کا کوئی میعاد نہیں ہوتا، وہ بہت جلد ختم ہوگا اور ہزاروں ظریف، چنگیز، جیئند اورنگزیب سامنے آیئنگے اور یہ جہد اسی طرح آگے بڑھے گا اور نا انصافی کو للکاریگا

تپاکی جہد دا گڈی سوب ء-

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔