انسانی حقوق کا عالمی دن اور بلوچ قوم کا استحصال – میر بلوچ

376

انسانی حقوق کا عالمی دن اور بلوچ قوم کا استحصال

تحریر: میر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسانی حقوق ان حقوق کو کہا جاتا ہے جو انسان کو انسان ہونے کی بنا پر حاصل ہیں۔ ان حقوق کو ہم بنیادی حقوق کہتے ہیں۔ انسانی حقوق کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسان کا وجود، انسان کے خالق اور مالک نے اسے معاشرتی زندگی گذارنے کے لئے ایک ضابطہ حیات آغاز زندگی کے ساتھ ہی عطا کردیا تھا۔ انگلستان میں میگنا کارٹا اور دستاویز حقوق جس پر انگلستان کے بادشاہ جان کنگ نے امراء BARON کے دباو کے تحت 1215 میں اپنی مہرثبت کی۔ اس دستاویز کی اہم بات یہ ہے کہ اس کے ذریعے انگلستان میں قانون کی حکمرانی کا اصول قائم ہوا یعنی بادشاہ قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ انقلاب فرانس کی داستان کا اہم ترین ورق انسانی حقوق کا اعلانیہ 1776 ہے۔ یہ اٹھارویں صدی کے اجتماعی فیصلے اور روسو کے نظریہ کا ثمر تھا۔ انسانی حقوق کے فرانسیسی اعلانیے میں عوام کی حاکمیت، آزادی، مساوات، اور ملکیت کے فطری حقوق کا قرار دیا گیا۔ امریکہ کا اعلان آزادی 4 جولائی 1776 کو جاری ہوا۔ اس اعلان کے ابتدائیہ میں فطری قانون کے حوالے سے کہا گیا کہ تمام انسان یکساں طور پر پیدا کئے گئے ہیں. تمام انسانوں کو برابر حقوق حاصل ہیں۔

برطانوی مفکر تھامس پین نے 1792 میں اپنا مشہور کتابچے انسان کے حقوق شائح کیا جس نے اہل مغرب کے خیالات پر گہرے اثرات مرتب کئے اور حقوق انسانی کے تحفظ کی جدوجہد کو مذید آگے بڑھایا۔

جب دنیا میں ریاستوں کی آپسی رسہ کشی شروع ہوئی تو ہر ریاست نے اپنے معاشی مفادات کو فروغ دینے کے لئے ایک دوسرے پر وار کیا، جس سے باقاعدہ ایک خوفناک جنگ کا آغاز ہوگیا۔ اس جنگ کا شکار مظلوم عوام ہی بنے۔

دوسری جنگ عظیم نے کروڑوں انسانوں سے آباد شہروں اور ملکوں کو قبرستانوں اور کھنڈرات میں تبدیل کردیا تھا اوران ہولناکیوں نے انسانی ذہن اور سوچ پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ اپنے ہی ہاتھوں ہنستے کھیلتے شہروں کی آبادیوں کو جس طرح تباہ و برباد کیا گیاانسان ہی انسان کے لئے درندہ بن چکا تھا، اس کی مثال تاریخ انسانی میں ملنی مشکل ہے انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ ہولناک جنگ کے بعد بالاخر انسان یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہوا کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوا کرتی بلکہ جنگ مزید مسائل کو جنم دیتی ہے، جنگ عظیم اول اور دوم دونوں ہی اس کی بدترین مثالیں ہیں۔ بالاخر انسان کو امن کے جھنڈے تلے ہی پناہ لینی پڑی ۔ ایک پرامن اور مستحکم اور خوشحال دنیا کے لئے مشترکہ جدوجہد کے لئے ایک عالمی ادارے کی ضرورت تھی ۔ اسی کے نتیجہ میں اقوام متحدہ کا ادارہ معرض وجود میں آیا اس ادارے کے قیام کے بنیادی مقاصد میں ایک انسانی حقوق کا تحفظ اور اس کا فروغ بھی ہے۔ اقوام متحدہ نے فروری 1946 میں انسانی حقوق کا ایک کمشن قائم کیا۔ یہ کمشن 18 اراکین پر مشتمل تھا اور اسے انسانی حقوق کا مسودہ تیار کر کے جنرل اسمبلی کے سامنے پیش کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 دسمبر 1948 کو انسانی حقوق کا عالمی منشور منظور کرکے اس کا باضابطہ طور پر اعلان کیا اور تمام رکن ممالک سے اپیل کی کہ وہ اپنے عوام کو بلاامتیاز اس منشور میں دیئے گئے کہ تمام معاشرتی، معاشی اور سیاسی حقوق دیں اور ان حقوق کی حفاظت کریں تاکہ دنیا میں امن قائم ہو اور ترقی و خوشحالی قائم ہوسکے۔ اس قرارداد کے باجود بھی اس رہتی دنیا میں انسانی حقوق کی پامالیاں ہورہی ہیں جہاں مظلوم اقوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے جو ان کی قانونی حق ہے۔

پاکستان نے بلوچ اقوام پر اپنا ناجائز قبضہ جمایا اور شروع دن سے لیکر آج تک بلوچ عوام پر پاکستانی مظالم جاری ہیں۔ بلوچستان اپنے قدرتی وسائل سے مالامال خطہ ہے اور یہاں کے عوام کو ان تمام حقوق سے محروم رکھا گیا ہے، جو انسان کی بنیادی حقوق ہوتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں آزادی سے رہے۔ 2008 میں جب پی پی پی کی حکومت اقتدار میں آئی تو بلوچستان حقوق پیکچ کے نام سے ایک بل پاس کیا اور کہا گیا کہ ہم بلوچستان کی محرومی کو دور کریں گے، بلوچستان کے عوام کو تمام تر سہولیات میسر کریں گے، جو ان کی بنیادی حقوق ہیں لیکن دیکھنےمیں یہ آیا کہ اس دور حکومت میں بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کا آغاز ہوگا جو ہر دور حکومت میں ہورہا ہے۔ آج بلوچستان کی حالات کا مختصر جائزہ لے تو ہم یہ جان سکتے ہیں کہ بلوچستان کے لوگ ایک خوف کی زندگی گزار رہے ہیں آئے روز فوجی آپریشن آئے روز لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کرنا اور ان کی مسخ شدہ لاش کسی ویران جگہ میں پھینک دینا روز کا معمول بن گیا ہے۔

پاکستان اپنی معشیت کو بچانے کے لئے بلوچستان کو استعمال میں لا رہا ہے۔ بلوچستان کے وسائل کو بیرون ممالک کے ساتھ معاہدہ کرکے خود کی لوڑی لنگڑی معشیت کو سانس دے رہا ہے۔ بلوچ عوام جو گذشتہ کئی دھائیوں میں اپنی بنیادی حقوق سے محروم ہے کہ ان کو تعلیم سے دور کرنے کے لئے بلوچستان کے بیشترتعلیمی اداروں کو فوجی چھانیوں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ آج بلوچستان کے اکثریتی علاقوں میں اسکولیں فوجی کیمپ کی شکل اختیار کرچکے ہیں اور ہاں جو بچے کچھے اسکول ہیں تو ان میں بھی تعلیم کا رحجان کم نظر آتا ہے۔

بلوچ عوام کی اکثریت روزگار ذریعہ معاش ماہی گیری ہے اور ریاست پاکستان بلوچ عوام کو اپنی ہی سرزمین میں ان کی روزگار کو چھین رہا ہے۔ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں بلوچ ماہی گیروں کو سمندر جانے کے لئے طرح طرح کے رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ سی پیک کے نام پر یہ کہہ رہے ہیں کہ سی پیک سے بلوچستان کی قسمت بدل سکتی ہے، گوادر کو انٹرنیشنل شہر میں تبدیل کرنے اور سنگاپور بنانے کے دعوے کررہے ہیں لیکن آج گوادر کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہیں ہیں پانی انسان کی ضرورت حیات ہے ان کے بغیر انسان زندہ نہیں رہے سکتا لیکن آج گوادر پانی سے مکمل محروم ہے۔

ریاست پاکستان نے اپنے سرکردہ ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرنا اور بلوچ سیاسی لیڈوروں کو قتل کرنا، بلوچ آبادیوں پر شیلنگ کرکے گھروں کو جلانا روز کا ماحول بن گیا ہے، کب اور کہاں، کس کو، کس وقت اٹھایا جاتا ہے کسی کو معلوم نہیں ہے۔ پاکستان نے بلوچستان پر ظلم کا بازار گرم رکھا ہے یہ ایک انسانی المیہ بناتا جارہا ہے یہ کسی ملک یا خطے کا مسئلہ نہیں ہے یہ بلکہ پوری انسانیت کا مسئلہ بن چکا ہے آج دنیا بھر میں 10 دسمبر انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جارہا ہے لیکن اس حقوق کی تحفط اور فراہم کرنا والے عالمی ادارے حقوق فراہم کرنے میں مکمل ناکام نظر آرہے ہیں۔ پاکستان نے بلوچستان میں اپنی ظلم کی حدیں پار کی ہیں لیکن ان کے اس مظالم کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا عالمی ادارہ نہیں ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔