انسانیت یا طاقت ؟
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
اقوام متحدہ جینیوا کنوینشن، سیکورٹی کونسل، ایمنسٹی انٹرنیشل کمیونٹی، یورپی یونین، عالمی عدالت اور دیگر بے شمار انسانیت کے علمبردار، وفادار علاقائی و عالمی انسانی حقوق کے سینکڑوں مختلف پاسدار تنظیمیں اور گروپ بے شک اس وقت انسان اور انسانیت کے حوالے سرگرم عمل ہیں، مگر ان کے شق، ایکٹ، دفعات، ایکشن ریکشن نوٹس وغیرہ وغیرہ پر کس حد تک عملدرآمد ہورہا ہے یا ہوچکا ہے؟ اگر کسی بھی مقام پر ہورہا ہے تو کیوں ہورہا ہے؟ اگر کسی مقام پر نہیں ہورہا تو کیوں نہیں ہورہا ہے؟
بہت دور ماضی میں جانے کی ضرورت ہی نہیں، انسان بیچارے کے ساتھ بلوچستان، سندھ، خیرپختونخواہ، برما، بوسنیا، عراق چین (کاشغر)افغانستان، لیبیا، سیریا، فلسطین، کشمیر، گوانتاناموبے وغیرہ وغیرہ میں کیا کیا نہیں ہوا اور کیا کیا نہیں ہورہا ہے؟
مگر انسانیت کی علمبرداری، وفاداری، فکرمندی، احساس اور کمٹنمنٹ کی بنیاد پر انسان اور انسانیت کے دعویداروں کا ایک بھی موثر اور تاریخی ایکشن یا ریکشن کی کہیں ایک واضح مثال کیوں نہیں ملتا ہے؟ (قطح نظر معمولی اور چھوٹے موٹے نوٹس ہدایت، اپیل، تشویش وغیرہ وغیرہ کے )جس سطح تک جس نوعیت کے انسان اور انسانیت کے حققوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور نافرمانی ہورہا ہے، آیا اس سطح اور نوعیت کی فرنبرداری کرنے والا کوئی دکھائی دے رہا ہے؟
میرے خیال میں جواب ہمیں نہیں میں ملتا ہے۔ جب حقیقت آکر نہیں میں رک جاتا ہے تو پھر نہیں کے بنیادی اسباب اور وجوہات کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہوتا ہے، ویسے بھی جب تک کسی بھی مسئلے معاملے، حادثے اور واقعے کی اصل اور بنیادی اسباب اور وجوہات سے بے خبری اور بیگانگی ہوگی۔ اس وقت تک ادھر ادھر دوڑنا اور کودنا لاحاصل اور بے معنی ہوگا۔ صرف اپنے دل کو اپنی مدد آپ تسلی دینے کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا، اس لیے پھر انسان اصل حقیقت سے لاعلم ہوکر حقائق کی ڈھونڈنے میں ناکام ہوگا اور یہی ناکامی پھر مکمل ناکامی ثابت ہوگا۔
شاید دنیا کے کان اتنے ہلکے بھی نہیں ہیں کہ معمولی سے یا انتہائی کمزور، ضیعیف اور دھیمی آواز کو بھی سن لیں، کیونکہ بہت شور شرابہ بھی ہے، شور و غول بھی، نفسانفسی بھی ہے۔ شاید بے بسی، عاجزی اور لاچاری کی آواز پر کوئی توجہ بھی نہیں دے کیونکہ جس عہد سے ہم گذر رہے ہیں، اس عہد میں ہر طرف شور شرابہ ہے، بے شک ہمارے ہی قریب ہماری آواز ہمارے کانوں کے پردوں کو پھاڑ دے، چیخ و پکار، سسکیاں ہمارے اور ہمارے قریب کے لوگوں کے دلوں کو بھی چیر پھاڑ دیں، کچھ نہ ہونے، بے حسی، خاموشی، خوف سے ہزار درجہ بہتر ہے کہ کچھ ہوجائے بغیر تھکاوٹ کے مسلسل، مستقل مزاجی کے ساتھ قطرہ قطرہ سمندر تو بن سکتا ہے، وہیں موجیں مارتے پرجوش سمندر کی ضرورت ہے، اسی طاقت کی طرف میرا اشارہ ہے وہ طاقت تب ہی ممکن ہوگا بلوچ قوم کو یہ احساس ہونا اور قوم کو یہ سمجھنا اور سمجھانا ہوگا، اس وقت بلوچ قوم کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ اور اس کا مستقل حل کیا ہے؟ جب بلوچ قوم پختگی اور شعوری بنیاد پر اس بات سے باعلم اور باخبر ہوگا تو قومی طاقت کی شکل میں متحرک اور سرگرمعمل ہونا ممکن ہوگا۔
مطلب انسان اور انسانیت کے ساتھ انسانی طاقت، صرف کمزور شکل میں انسان اور انسانیت کا چرچا واویلا چیخ پکار کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگے گی۔
بحثیت بلوچ، بحثیت انسان، بحثیت مظلوم قوم، دیگر مظلوم انسانوں کی مضبوط اشتراک و یکجہتی کے ساتھ اپنی قومی و انسانی بقاء، دفاع اور تحفظ کی بنیاد پر ایک طاقت کی شکل میں اپنے آواز کو دنیا کے کونے کونے تک انتہائی موثر اور منظم انداز میں پہچاننا سود مند اور موثر ثابت ہوگا۔
جب بلوچ قومی نجات دہندگی کی جنگ وسعت اور شدت یا طاقت کی منظم اور موثر شکل اختیار نہیں کریگا، اس وقت تک کوئی سننے والا اور توجہ دینے والا بھی نہیں ہوگا۔ دنیا کو باور کرانے کے ساتھ مجبور کرنے کی بھی ضرورت ہوتا ہے، شاید باور کرانا چیخ و پکار اور احتجاج سے ممکن ہو لیکن مجبور کرنے کے لیے طاقت اور قومی قوت کی ضرورت ہوتی ہے یعنی طاقت و قوت کے مقصد کو ہم بحثیت قوم اور بحثیت انسان کسی بھی صورت اپنے شناخت و تشخص، سرزمین، ساحل و وسائل کو آسانی کے ساتھ کسی کے حوالہ کرنے کو تیار نہیں ہیں، سب کو اس بات پر مجبور اور قائل کرنا ہوگا، اسی لیئے پھر قومی طاقت کے بغیر قائل کرنا اور مجبور کرنا ممکن نہیں ہے۔
ایک طاقت، جبر، ظلم، دہشت گردی، بربریت، لوٹ کھسوٹ، قبضہ گیریت کا ہوتا ہے۔ دوسری طرف یہ تمام ناسور چیزوں کے خلاف امن، انصاف، برابری، انسانی و قومی نجات، بقاء اور دفاع کا ہوتا ہے۔ جو مکمل انسانی و اخلاقی فلسفے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، یہی وہ طاقت ہے، اس وقت بلوچ، سندھی اور پشتون قوم سے تقاضہ کرتا ہے اس وقت تینوں اقوام پاکستان چین اور دیگر استحصالی قوتوں کے انتہائی خطرناک حد تک زد میں ہیں۔
حالاتو واقعات، پیش قدمی، تبدیلیوں اور نت نئے توسیع پسندانہ عزائم کے تناظر اور ادراک کے پیش نظر اگر بلوچ، سندھی اور پشتوں آواز اور قدم اٹھائینگے بھی مار کھائینگے، اگر نہیں اٹھائینگے بھی مار کھائینگے۔ البتہ ایک فرق ضرور ہوگا جب آواز اور قدم اٹھائینگے تو مار کھا کھا کر صفحہ ہستی سے ختم نہیں ہونگے، خاموشی اور خوف میں نہ بلوچ، نہ سندھی اور نہ پشتون بچے گا تو اس سے بہتر نہیں کہ دشمن کے خلاف آواز اور قدم اٹھاکر اپنے اپنے اقوام اور آئندہ کے نسلوں کو بچانا چاہیئے؟
بس ایک بات یا ایک حقیقت ذہن میں مکمل اور مکمل ہر وقت ذہن نشین ہونا چاہیئے، یہ وقت انتظار کی اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا ہرگز اور ہرگز نہیں ہے بلکہ مستقبل کے ادراک اور پیش بینی کے ساتھ، مکمل باعلم اور باخبر ہوکر صرف فارملٹی اور وقت پاسی کی نہیں بلکہ شب و روز متحرک اور فعال شکل میں سرگرم ہوکر آگے بڑھنا ہوگا، تب جاکر کامیابی کو کوئی روک نہیں سکتا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔