افغان امن مذاکرات اور پاکستان کی ہچکچاہٹ
تحریر: سلام صابر
دی بلوچستان پوسٹ
امریکہ بظاہر اپنے تاریخ کے طویل ترین جنگ کوبرسرِزمین عسکری شکست و ریخت کے بعد مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے اور طالبان بھی اس مرتبہ محتاط انداز میں مذاکرات کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
اس پورے مذاکراتی عمل میں جس کردار کا سب سے زیادہ چرچا ہورہا ہے یا کیا جارہا ہے وہ پاکستان کا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے، اسی بابت پاکستانی وزیراعظم کو ایک خط لکھا گیا۔
گوکہ پاکستان اس بات کا اعلانیہ اقرار بھی کرچکا ہے کہ اس کا طالبان میں اثر ورسوخ ہے، اور وہ ( پاکستان ) انہیں ( طالبان) مذاکرات کی میز پر لانے میں اپنا کردار ادا کرئے گا۔
پاکستان کے ان دعوؤں میں کافی حد تک حقیقت بھی ہے کیونکہ طالبان کے قدرے منظم و مضبوط گروپ، حقانی نیٹ ورک کی قیادت کے قریبی تعلقات کے علاوہ ان کے سکونت و تربیت کے مراکز پاکستانی علاقوں میں زیادہ ہیں۔
شام سے امریکی افواج کی واپسی اور افغانستان میں روس کی عدم مداخلت کی یقین دہانی
امریکی صدر نے بیس دسمبر کو اعلان کیا کہ شام میں دولت اسلامیہ ( داعش) کے خلاف جنگ جیت چکے ہیں اور بقول صدر ٹرمپ ہم نے داعش کو بری طرح مارا اور اس لئے اب وقت آگیاکہ شام سے امریکی افواج کو واپس بلایا جائے۔
شام سے امریکی افواج کی واپسی کو بعض معتبر ذرائع اندرون خانہ روس کی افغانستان میں عدم مداخلت کی یقین دہانی سے وابسطہ کرتے ہیں، کیونکہ اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ طالبان نے جنگ کے میدان کے علاوہ سفارتی سطح پر بھی امریکی اور اس کی افغان کٹھ پتلی حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرچکے ہیں۔
طالبان نے انتہائی تیزی کے ساتھ روس، چین، ایران کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط بنائے اور عرب ممالک کے ساتھ ان کے پہلے سے تعلقات کافی مثبت تھے۔
ایران و روس کے متعلق تو یہاں تک بھی کہا جارہا ہے کہ عسکری کمک بھی طالبان کو فراہم کررہے ہیں اور اس بارے میں طالبان، ایران اور روس کے مفادات قدرے مشترک ہیں، جو امریکہ کیلئے بے چینی اور داعش کو افغانستان میں قدم جمانے نہ دینا ہیں۔
حقانی نیٹ ورک، اصل خطرہ
افغانستان کے دارالحکومت سمیت اکثر شمالی علاقوں میں حقانی نیٹ ورک ہی سرگرم ہے، اور اسی گروپ کو امریکہ نے دہشت گرد بھی قرار دیا ہے، حالیہ مذاکراتی عمل میں خود امریکہ نے دہشت گرد قرار دیئے جانے والے حقانی نیٹ ورک کے نمائندوں سے بھی عرب امارات میں مذاکرات کیئے، اطلاعات کے مطابق حقانی نیٹ ورک کی جانب سے تین رکنی وفد جس میں حافظ یحییٰ، سعد اللہ حماس اور ڈاکٹر فقیر شامل تھے عرب امارات میں امریکی وفد سے ملاقات میں اپنے گروپ کی نمائندگی کی، حقانی نیٹ ورک سمیت طالبان کے مطالبات میں تین مرکزی نقطے شامل ہیں، جس میں سب سے اہم و لازمی مطالبہ افغان سرزمین سے امریکی انخلاء کے علاوہ قیدیوں کی رہائی اور عام شہریوں پر حکومتی فورسز کے حملوں کی روک تھام شامل ہیں۔
امریکہ طالبان کے دیگر تمام مطالبات کو کافی حد تک تسلیم کرچکا ہے یا کرے گا لیکن افغانستان سے مکمل انخلاء کے متعلق طالبان کو بگرام و شوراب اڈوں کو اپنے پاس رکھنے پر راضی کرنے میں لگا ہوا ہے، گوکہ طالبان نے ظاہری طور پر یہ موقف اپنایا ہے کہ وہ افغان سرزمین کے داخلی امور پر امریکہ کے ساتھ کوئی بحث و مباحثہ نہیں کریں گے اور نہ ہی امریکہ سے کوئی رائے طلب کریں گے، لیکن قوی امکان ہے کہ طالبان اپنے مکمل انخلاء والے موقف میں نرمی لائیں گے۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات اور افغان کٹھ پتلی حکومت کی پریشانی
افغانستان میں بظاہر ایک نمائندہ حکومت عوام کی ووٹوں سے منتخب ہوکر اقتدار میں آیا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح بلوچستان میں برائے نام و ایک کٹھ پتلی حکومت موجود ہے اور جس کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کی ووٹوں سے منتخب ہوکر برسراقتدار ہے لیکن ان کی حقیقت کو ہر عام سیاسی کارکن بھی بخوبی جانتا ہے کہ ان کے لگام اسلام آباد میں موجود قوتوں کے ہاتھوں میں ہیں۔
اسی طرح افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت بھی ایک کٹھ پتلی حکومت کے سواء اور کچھ نہیں جس کا بہتر انداز میں مشاہدہ حالیہ مذاکراتی عمل میں ہوا، جہاں پہ قومی سلامتی کے مشیر مذاکرات و نئے عبوری حکومت کے قیام پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے لیکن دوسری جانب امریکہ کے اعلیٰ مذاکرات کار زلمے خلیل زاد بڑے ظالمانہ انداز میں قومی سلامتی کے مشیر کا تمسخر اڑاتے ہوئے بیان جاری کرتے ہیں کہ دراصل ان کے ( حمد اللہ محب) پاس مذاکراتی عمل کے متعلق معلومات ہی نہیں۔
اشرف غنی کی حکومت طالبان قیدیوں کی رہائی سے متعلق پریشانی میں مبتلا ہے اور وہ کسی بھی طرح سے ان قیدیوں کی دوبارہ میدان جنگ میں ملوث نہ ہونے کی ضمانت چاہتا ہے، لیکن اس پریشانی اور تشویش کے باوجود افغان طالبان کے سب سے طاقتور جنگی کمانڈر ملا برادر کو رہا کیا گیا، اور پھر طالبان جو مذاکرات کی میز پر آنے سے قبل ہی پورے افغانستان میں اپنی پوزیشن کو انتہائی مستحکم کرچکے ہیں، وہ بھی کسی صورت اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کرنے پہ آمادہ نہیں ہیں۔
کیا افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہے ؟
غالب امکان اور امید یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ طالبان کے مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان میں امن قائم ہوجائے گا اور اس بارے طالبان نے گذشتہ عید الفطر کے موقع پر تین روزہ جنگ بندی کا اعلان کرکے اور عملاً اس کا مظاہرہ بھی کیا، لیکن حالیہ عرصے میں جب امریکہ کی جانب سے افغانستان کے مختلف علاقوں میں قدرے سخت گیر طالبان رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے عمل میں تیزی لائی گئی، تو خود طالبان کے اندر سے مذاکراتی عمل کے بارے میں شکوک و شہبات کا اظہار کیا جارہا ہے، اور اس بات کا خطرہ موجودہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے بعد طالبان ایک دفعہ پھر تقسیم کا شکار ہونگے اور ایک دھڑہ افغانستان میں حکومت سازی کے عمل میں شامل ہوگا اور قدرے سخت گیر دھڑہ جس کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ ملا منصور کے قریبی دوستوں پر مشتمل ہے، وہ اپنے مزاحمت کے تسلسل کو برقراررکھیں گے، کیونکہ افغانستان میں صرف امریکی مفادات نہیں بلکہ اردگرد اور دیگر عالمی قوتوں کے مفادات بھی وابستہ ہیں۔
افغان امن مذاکرات میں پاکستان کیا ضمانت چاہتا ہے ؟
افغانستان میں پاکستان کی مداخلت کسی سے پوشیدہ نہیں، طالبان میں پاکستان کی اثر و رسوخ اور بالخصوص حقانی نیٹ ورک میں پاکستانی اثرورسوخ ایک کھلا راز ہے، لیکن حالیہ عرصے میں طالبان کی جانب سے اپنے مراکزکی افغانستان میں اپنے زیر اثر علاقوں اور تہران منتقلی کے بعد وہ کافی حد تک پاکستان کے دباؤ سے بھی باہر نکل گئے، بالخصوص افغانستان کے جنوبی اور مغربی علاقوں میں سرگرم طالبان قیادت۔
پاکستان کی عسکری و سول حکومت کی جانب سے افغان امن عمل میں تعاون کے بدلے جو ضمانت امریکہ سے مانگا گیا ہے، وہ بلوچستان سے متعلق ہیں، بالخصوص حالیہ عرصے چین کی مدد سے ہونے والی سرمایہ کاری پہ ہونے والے بلوچ مسلح تنظیم کی جانب سے تواتر کے ساتھ حملوں نے پاکستانی مقتدرہ کو کافی حد تک نفسیاتی کوفت میں مبتلا کردیا، چونکہ پاکستان تواتر کے ساتھ بلوچستان میں جاری مزاحمت کے بارے یہ کہتا آرہا ہے کہ اس کو بھارت و افغانستان کی مدد و کمک حاصل ہے اس لیئے گذشتہ ماہ اسلام آباد کا دورہ کرنے والے امریکی وفد کے سامنے جو مطالبات اندرون خانہ پیش کئے گئے ان میں سے چند ایک کا تعلق بلوچ مزاحمت کے بارے میں ہیں، گوکہ اس وقت بلوچ مزاحمت محدود پیمانے پر ہے، لیکن پاکستان عسکری، سیاسی، ثقافتی اور نفسیاتی حوالے سے بلوچ مزاحمت کو روکنے اور کچلنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔
اب اس تمام صورتحال میں خود بلوچ قیادت کہاں پہ کھڑا ہے اور کیا کررہا ہے؟ اس بارے میں کچھ کہنا شاید بہت سوں کو ناگوار گذرے اس لیئے فی امان اللہ۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔