افغانستان امن مذاکرات : امریکی و طالبان نمائندے پاکستان پہنچ گئے

452

افغانستان میں امن مذاکرات کو آگے لے جانے کےلئے امریکی اور طالبان نمائندے پاکستان پہنچ گئے ہیں ۔

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اپنے 18 روزہ دورے کے پہلے مرحلے میں پاکستان پہنچ گئے۔ اسلام آباد آمد پر نمائندہ خصوصی  پاکستان کی اعلی سیاسی اور عسکری قیادت سے ملاقات کریں گے۔ جبکہ دوسری جانب  افغان طالبان قطر آفس کا ایک وفد گذ شتہ روز ہی مذاکرات کیلئے پاکستان پہنچا ہے۔

دورے کے دوران نمائندہ خصوصی پاکستان، افغانستان، روس، ازبکستان، ترکمانستان، بیلجیئم، متحدہ عرب امارات اور قطر جائیں گے۔ زلمے خلیل زاد افغان حکام اور افغان امن عمل میں دلچسپی رکھنے والی جماعتوں سے ملاقاتیں کریں گے۔ زلمے خلیل اس بات کی بھی کوشش کریں گے کہ مذاکرات کے ذریعے تنازع کا تصفیہ تلاش کیا جائے۔ زلمے خلیل زاد کے ہمراہ خصوصی وفد بھی ان کی معاونت کیلئے موجود ہوگا۔

ان کا  کا کہنا تھا کہ وہ امریکی حکومت کی جامع ٹیم کی سربراہی کر رہے ہیں، ان کی ٹیم میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، پینٹاگون، وائٹ ہاؤس اور دیگر سیکیورٹی ایجنسیوں کے ارکان بھی شامل ہیں۔

مغربی میڈیا کے ذرائع کے مطابق مفاہمی عمل اور امن مذاکرات کیلئے افغان طالبان کے قطر دفتر کے سربراہ شیر محمد عباس اسلام آباد میں موجود افغان طالبان کے وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان طالبان کے رہنما ھیبت اللہ اخونزادہ کی درخواست پر طالبان قطر دفتر کا 7 رکنی وفد مذاکرات کیلئے پاکستان پہنچا ہے۔ مذاکرات میں وفد کی افغان طالبان کے سربراہ سے ون آن ون ملاقات کا بھی امکان ہے۔

یاد رہے کہ تین  دسمبر کو افغان طالبان کے خلاف ہونے والی کارروائی میں جنوبی افغانستان میں امریکی ڈرون طیارے نے اہم طالبان رہنما کو نشانہ بنایا، حملے سے افغان طالبان قیادت کو شدید دھچکہ پہنچا ہے۔ ملا عبدالمنان  ہفتے کے روز صوبہ ہلمند کے نوزاد ضلع میں ہونے والے حملے میں اپنے دو دیگر ساتھی جاوید اور ارشاد  ساتھیوں  مارا گیا۔

ملا منان افغانستان کے صوبے ہلمند کے قائم مقام گورنر نامزد تھے، جہاں کا زیادہ تر علاقہ طالبان کے زیر قبضہ ہے اور اُس کی ہلاکت کوطالبان کے لیے ”ایک بڑا نقصان” قرار دیا جا رہا ہے۔

 عام خیال یہ ہے کہ منان نے ہلمند کے گرد صوبوں کے لڑائی کے میدان پر حملوں کی منصوبہ بندی کے کام میں کلیدی کردار ادا کیا جن میں کشیدگی کا شکار غزنی اور فراہ  بھی شامل ہے

زلمے خلیل زاد کی آمد سے قبل صوبے ہلمند کی ضلع دیشو میں افغان طالبان اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں افغان دور کے سابق گورنر اور اہم رہنما ملا قیوم روحانی کی ہلاکت کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ تاہم طالبان کی جانب سے ان خبروں کی تردید کی گئی ہے۔

تجزیہ کاروں نے کارروائی کو افغان طالبان کے خلاف بڑی کارروائی اور بڑا نقصان قرار دیا ہے۔ رواں سال افغانستان میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل جنرل رازق کی ہلاکت کے بعد فورسز کی یہ اہم کارروائی ہے۔

اس سے قبل رواں سال اکتوبر میں پاکستانی سفارت خانے نے اعلان کیا تھا کہ حکومت افغانستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار اور مذاکراتی عمل کو آسان بنانے کیلئے طالبان رہنماوں کو رہا کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق طالبان رہنماوں کی رہائی زلمے خلیل زاد کے ساتھ مذاکرات کے بعد عمل میں آئی۔

ملا برادر، ملا عمر سمیت ان چار ساتھیوں میں سے ایک تھے، جنہوں نے 1994 میں افغان طالبان کی تحریک شروع کی، ملا عبدالغنی برادر 2010 میں کراچی میں گرفتار ہوئے تھے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ملا عبدالغنی برادر منگل 23 اکتوبر کو اپنے خاندان کے پاس پہنچ چکے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ملا برادر کی رہائی امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کیلئے ایک قدم ہو سکتا ہے۔

بارہ اکتوبر کو امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے افغان طالبان کے وفد سے قطر میں ملاقات کی، جس میں افغان تنازعہ کے حل کیلئے گفتگو ہوئی۔ اس ملاقات کی تصدیق افغان طالبان کی جانب سے کی گئی۔

دورہ پاکستان میں زلمے خلیل زاد سیاسی اور عسکری حکام کے ساتھ مذاکرات کریں گے، جس میں وہ طالبان سے امریکی مذاکرات پر سیاسی اور عسکری قیادت کو اعتماد میں لیں گے۔ زلمے خلیل زاد کا دورہ گذشتہ ماہ طے تھا جو ناگزیر وجوہات پر ملتوی کیا گیا تھا۔

گزشتہ ماہ قطر میں ہونے والے مذاکرات میں زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان رہنماوں نے خطے میں امن اور مذاکرات پر زور دیا تھا۔

افغان میڈیا سےگفتگو میں نمائندہ خصوصی نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ اگلے سال ہونے والے افغان صدارتی انتخاب سے قبل افغان حکومت اور طالبان کسی مثبت معاہدے پر پہنچ جائیں گے اور آئندہ چند مہینوں میں ہونے والی پیش رفت گذشتہ پانچ سالوں کے مقابلے میں زیادہ جلد متوقع ہے۔ حالیہ پیش رفت پر امریکی سفارت کار رابن رافیل کا کہنا ہے کہ اس تمام مفاہمتی عمل میں زلمے خلیل زاد تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں، مگر جلدی میں ہیں۔

ایک موقع پر افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے ساتھ پہلے دو طرفہ تعلقات کی بنیاد پر بات چیت اور مذاکرات چاہتی ہے، کسی نتیجہ خیز مرحلے پر پہنچ کر دوسرے ممالک کو اس میں شامل اور اس کا حصہ بنایا جائے۔


واضح رہے کہ اس سے قبل گذشتہ دورے میں امریکی نمائندہ خصوصی افغان سول سوسائٹی، میڈیا، حکومت اور غیر حکومتی حکام کے ساتھ پہلے بھی ملاقات کرچکے ہیں۔ گذ شتہ دورے کے دوران زلمے خلیل زاد نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا افغانستان میں دیرپا امن اسی صورت ممکن ہے جب تمام ادارے مل کر کام کریں، امریکا افغان عوام کی امن کی خواہش کا احترام کرتی ہے اور اس سلسلے میں ان کی مدد کیلئے تیار ہے۔ اس سے قبل دورہ افغانستان کے موقع پر امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان عمل نے افغانستان کی حکومت اور طالبان کو مذاکرات کے لیے ٹیم تشکیل دینے پر زور دیا۔

افغان نژاد سابق امریکی سفیر ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، وہ خارجہ پالیسی کے امور کے ماہر بھی ہیں۔ خلیل زاد کو تعینات کرنے کا فیصلہ ایسے وقت میں ہوا جب امریکی فوج کے کمانڈر لڑائی میں تعطل کے معاملے کو تسلیم کر رہے ہیں، جب کہ افغانستان انتخابات کے عمل سے گزر رہا ہے۔