افسردگی اور وار سائیکی – برزکوہی

420

افسردگی اور وار سائیکی

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

ماہر نفسیات انتھونی سٹیونز کہتے ہیں کہ جنگیں سینٹ، پارلیمنٹ یا فوجی ہیڈکوارٹر میں نہیں بلکہ انسانی ذہنوں میں شروع ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسرے کے خلاف جنگ کے خلاف جنگ پر نکلنے کا محرک انسان کے اندر بہت گہرائی میں نقش ہے
پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس اینگزائیٹی ڈس آرڈر، ذہنی تناو، ذہنی دباو، ہسٹریا دیگر نفسیاتی اور ذہنی امراض کا اگر پہلی سیڑھی یا ماں اور بنیادی جڑ اگر نفسیاتی مرض افسردگی یعنی ڈپریشن کو کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

کون نہیں جانتا افسردگی depression کو ہر ایک ضرور جانتا ہیں سننے کی حد تک شاید سمجھنے کی حد تک بہت کم لوگ جانتے ہونگے، کیا آج بھی ہمارے سماج میں، ہمارے لوگ نفسیاتی امراض کا شکار ہونے کے سبب کو بلا، جنات، دیو و جادو، سیر بدروح وغیرہ کا حملہ تصور نہیں کرتے ہیں اور اس کا علاج یا چھٹکارہ مولوی، پیر، مرشد، سید، دربار مزار، تعویز اور گنڈ سے نہیں کرواتے ہیں؟

قبل مسیح میں جب یونان میں طب پروان چڑھ رہی تھی اور ہندوستان میں آیوروید میں ایسے امراض کے علاج تلاشنے کی کوشیش جاری تھیں دوسرے طرف اس وقت بھی لاعلمی اور بے شعوری کی انتہاء تھی اور یہ عقیدہ تھا جب خدا یا دیوتا کسی شخص سے ناراض ہوجاتا ہے تو اس میں بدروح، جن، پری اور بلا داخل کرتا ہے۔ اس لیے وہ عجیب غریب حرکتیں کرتا ہے یہی وجہ تھی کہ ایسے نفسیاتی مریضوں پر ظلم و ستم کرنا انھیں علاقہ بدر کرنا اکیلے کمرے میں رکھنا جنگلوں اور پہاڑوں میں چھوڑ دینا اور پتھروں اور کھوڑوں سے مارنے کا رواج زور پکڑا، اس طرح لوگ ان مریضوں کو مختلف ایزائیں پہنچا کر اپنے آپ کو دیوتاوں کا ہم خیال یا معاون ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ جو آج کل پیرو مرشد، مولوی، جادوگر وغیرہ کررہے ہیں۔

اس وقت کچھ انسانیت دوست انسانوں کو ان نفسیاتی مریضوں پر رحم آیا اور انہوں نے اسے جہالت، بے شعوری اور ظلم و ستم قرار دیکر اس کے خلاف آواز اٹھایا۔ ان سب سے زیادہ نمایاں کردار اور سب سے زیادہ اہم شخصیت بقراط کی تھی۔

مورخ لکھتے ہیں کہ ہیپوکریٹس 460 قبل مسیح میں جزیرہ کوس میں پیدا ہوا عرب اسی ہیپوکریٹس کو بقراط کہتے ہیں۔
ویسے بقراط یونانی فلاسفر سقراط کا ہی ہم عصر ہے بقراط 460 قبل میسح میں پیدا ہوا جبکہ سقراط 469 قبل مسیح میں پیدا ہوا۔

آج بھی اگر دیکھا جائے اور سمجھا جائے بقراط ہی دنیا میں پہلا ماہر نفسیات ماہر طب اور پہلا سرجن ہے گوکہ بقراط اور ارسطو سے لیکر 1856 میں پیدا ہونے والی ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ نے نفسیاتی امراض کی تشخیص اور علاج کے لیے جدید طریقہ کار تحلیل نفسی کا نظریہ پیش کرکے، علم نفسیات کا بانی بن گیا اور تحلیل نفسی کے طریقے سے مختلف نفسیاتی مریضوں کے امراض کا تشخیص اور علاج ممکن بنایا۔

اس طریقہ علاج کی دنیا بھر میں شہرت ہوئی اور اس کو psychiatry کے تحت لے آیا گیا اور طب نفسیاتی نے طب دماغی کے ساتھ مل کر غیر معمولی ترقی کی جدید ترین مشینری اور آلات کی ایجاد سے تحقیق و تشخیص میں بہت آسانیاں پیدا ہوگئیں۔

نفسیاتی مرض افسردگی depression ابتداء میں یاس و مایوسی، خوف، حسرت اور ناامیدی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ انسان جب اپنی پریشانیوں اور مسلسل ناکامیوں سے دوچار ہوتا ہے تو وہ ہمت ہار جاتا ہے اور اپنے آپ کو نااہل اور ناکارہ سمجھنے لگتا ہے اور اس کے لیے پھر زندگی کی نعمت پھیکی بے، مقصد اور بے معنی ہوجاتی ہے۔ انسان پھر ہر وقت اداس اور غمگین رہتا ہے، مایوسی و ناامیدی اس کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کا درجہ دن بدن گرتا جاتا ہے اور رفتہ رفتہ اپنے کام پر توجہ اور دلچسپی ختم ہوتا ہے۔ اس کیفیت کا جیسے جیسے غلبہ بڑھتا جاتا ہے انسان پر مریضانہ حالات شدید قابض ہوتے رہتے ہیں اور پھر انسان مختلف قسم کے ذہنی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوتا ہے، جو پہلے خفیف اور پھر شدید شکل اختیار کرلیتے ہیں اور خطرناک علامات کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں اور انسان اپنا ذہنی توازن اور یاداشت کھو بیٹھتا ہے اور اکثر باتوں اور چیزوں کو بھول جاتا ہے۔

نفسیاتی مرض افسردگی ہی دیگر جسمانی امراض کے علاوہ خاص کر ذیابیطس (شوگر)اور ہائی بلڈپریشر کا سبب بنتا ہے۔
چڑا چڑاپن، دردسر، اضطرابی بے چینی کیفیت کے ساتھ جارہانہ رویہ، منفی سوچ، وہم، بدگمانی، بداعتمادی، شک، خود کو ناکام نااہل اور کمتر سمجھ کر دوسروں سے غصہ نفرت جذباتی کیفیت میں ہوکر مقابلہ بازی کے لیے اخلاقی اور مثبت کردار ادا کرنے کے بجائے حسد، بغض اور کینے کی بنیادوں پر سازش اور حربے کو بطور ہتھیار استعمال کرکے بدنیتی جھوٹ اور غیبت کے سہارے بازی لے جانے کی کوشش بھی نفسیاتی مرض افسردگی کی اہم وجہ ہوتا ہے۔

مریض اپنے کے علاوہ دوسروں کے مثبت کردار معمولی و غیرمعمولی اچھے کاموں اور کارناموں سے ناخوش اور خوف زدہ ہونا اور اپنے آس پاس اردگرد کے ہر مثبت اور اچھے عمل کو اپنے خلاف سازش اور دشمنی تصور کرتا ہے اور خود کچھ بھی کرنے کی ہمت بھی نہیں کرتا ہے، اگر تھوڑا بھی ہمت کرکے کوئی بھی کام اور مشن کا شروعات کرلیا جائے لیکن جلد ہی اسے ادھورا چھوڑ دیتا ہے جلد ہی وہ کام اور مشن عدم توجہ اور عدم دلچسپی کا شکار ہوجاتا ہے، اگر کوئی دوسرا وہ کام اور مشن انتہائی توجہ اور دلچسپی کے ساتھ آگے بڑھا دے تو وہ اس کی مخالفت نقطہ چینی اور اس میں خوامخواہ کیڑا نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔
گوکہ آج بلوچستان میں بلوچ قوم کے علاوہ تمام ممالک معاشروں اور اقوام میں دیگر نفسیاتی امراض کے ساتھ ڈپریشن کا ریشو بہت زیادہ ہے، وارثت، غربت، بے روزگاری جنسی بے راہ روری، ناانصافی جرائم ظلم و جبر بربریت کے علاوہ تمام تر افسردگی کے تانے بانے برائے راست جنگ ریاستئ دہشت گردی اور تشدد سے ملتے ہیں۔

یعنی امریکہ میں 9/11کے حملوں میں 3000کے لگ بھگ افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ نیو یارک میں 9/11کے حملوں کے نفسیاتی طور پر متاثرہ افراد کی مدد کے لیے ایک ادارے Association for Trauma Outreach & Preventionکی صدرماہر نفسیات ڈاکٹر Anniنے بتایا کہ 9/11کو اتنے برس گزرنے کے بعد بھی امریکیوں کی نفسیات پر اس کے منفی اثرات قائم ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس ناقابلِ یقین حادثے کے متاثرین میں اپنے رشتے داروں اور دوست احباب کو کھونے والوں کے علاوہ وہ لوگ بھی شامل ہیں جِنھوں نے باربار اِس واقعے کی تصاویر ٹی وی پر دیکھیں۔

اُنھوں نے کہا کہ اب بھی امریکہ میں ایسے سینٹرز کام کررہے ہیں جہاں لوگ اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں اور اُن کو تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ صرف درگذر کے ذریعے ہی اِس صدمے کو بھلا سکتے ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر اینی کے مطابق اِن سینٹرز میں لوگوں کی تعداد اب پہلے کی نسبت کم ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اجتماعی طور پر غم کی کیفیت، غصہ، ذہنی خفگی اور بے یقینی کی صورتِ حال جیسے نفسیاتی اثرات فوری طور پر نظر آئے تھے۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِس کیفیت کی جگہ PTSDنے لے لی ہے، جو ایک ایسی کیفیت ہے جِس میں لوگ غم کا اظہار کرتے ہیں اور یہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ انسان کی عام زندگی متاثر ہوتی ہے۔اِس پر قابو تو پایا جاسکتا ہے لیکن مکمل طور پر اِسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔

یعنی جنگ اور تشدد خود انسان کی مزاج اور طبیت کے برعکس خلاف توقع اور ناقابل یقین حالت پیدا کرتا ہے انسان کو بلکل توقع اور یقین نہیں ہوتا ایسا بھی ممکن ہوگا جب بھی جنگ اور تشدد سے خلاف توقع اور ناقابل یقین واقعات اور حادثات رونما ہونگے تو انسان اگر ذہنی اور فکری حوالے سے مکمل تیار نہیں ہوگا اور اس کے اسباب کو سمجھ نہیں پائیگا تو ڈپریشن کا شکار ہونا سو فیصد خارج ازمکان نہیں ہوگا
ڈپریشن کے علاج اور اس سے چھٹکارے کے حوالے سےگون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر نفسیات پیٹر ایم لیون سوہن کا تجویز کردہ ہے۔

سوہن صاحب کہتے ہیں کہ ڈپریشن سے محفوظ رہنے کے لیے میل جول بڑھائیں۔ سماجی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ دوستوں اور عزیزوں سے ملیں۔ ایسے کام شروع کریں جن سے آپ کو اپنی صلاحیتوں کا احساس ہو، مثلا کوئی نیا کام سیکھیں، نئے دوست بنائیں، فلم ، موسیقی ، کھیل اور دوسری دلچسپیوں میں حصہ لیں۔

ماہرین نے بہت سی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہمارے جذبے ہمارے طرز عمل سے مرتب ہوتے ہیں۔

امریکا کے کلارک یونیورسٹی کے نفسیات کے استاد جیمز ڈی لیرڈ کا مشورہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ جب کبھی آپ پر اداسی کا دورہ پڑے تو خود کو کمرے میں بند مت کریں۔ باہر نکلیئے ، دوستوں سے ملیئے ،چہل قدمی کیجئے ۔ کسی پارک یا تھیٹرکا رخ کیجئے، منہ مت لٹکائیے ۔ مسکرائیے ۔

محض اتنی سی کوشش سے آپ کا موڈ بدل جائے گا۔ اس کے برخلاف آپ تیوری چڑھائے ،ہاتھ پر ہاتھ دھرے اپنے کمرے میں بند رہے تو ڈپریشن کم نہ ہوگا بلکہ بڑھتا جائے گا۔

نفسیاتی مرض ڈپریشن میں مبتلا انسان فرد قوم کیسے اور کس طرح قومی ترقی قومی خوشحالی اور قومی تشکیل میں اپنا ایک متحرک اور مثبت کردار نبھاکر اور فیصلہ کرکے بہتر منصوبہ بندی کرکے قومی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کریگی؟

تو ضرورت اسی امر کی بحثیت ایک قوم بحثیت قومی جہدکار انتہائی ضروری ہے کہ ذہنی و فکری تعلیم و تحقیق اور ریسرچ کے تحت منظم انداذ میں ذہنی مرض ڈپریشن کے حوالے سے غور و غوض تحیقیق اور اس کی بنیادی اسباب اور وجوہات کو جان کر اپنے لوگوں کو آگاہی فراہم کرنا اور ساتھ ساتھ تشدد اور جنگ سے پیدا ہونے والی واقعات اور حادثات کے بارے میں پہلے سے اپنے لوگوں اور جہدکاروں کو ذہنی اور شعوری حوالے سے مکمل تیار کرنا تاکہ لوگوں اور جہدکاروں کے لیے تمام ناقابل یقین اور غیر متوقع واقعات قابل یقین اور متوقع ثابت ہوں تو جب وہ تمام واقعات کو حسب معمول زندگی اور جدوجہد کے حصہ شعوری بنیادوں پر سمجھ لینگے تو یہ ممکن نہیں ڈپریشن کی وجود نہیں ہوگا بلکہ ہوگا ضرور لیکن کم سطح پر ہی ہوگا۔

ذہینی تربیت اور فکر کی مضبوطی ہی دراصل ڈپریشن جیسے مرض کی خلاف ایک طاقتور مدافعتی قوت ہوگا ورنہ بڑی تعداد میں ہمارے لوگ اور ہمارے جہدکار شکار ہونگے اور اس کے تمام منفی اثرات تحریک کے لیے خطرہ بن کر تحریکی مسائل در مسائل پیدا کردینگے اور دشمن بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔