استاد اسلم بلوچ کی شہادت سندھ اور قومی تحریک کیلئے بھی ایک سانحہ ہے۔ صوفی شاہ عنایت

418

پاکستانی پنجابی ایجنسیوں کے ہاتھوں بلوچ قومی مزاحمتی تحریک اور بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر استاد اسلم بلوچ سمیت پانچ ساتھیوں کی شہادت کو بلوچ قوم، قومی تحریک اور مزاحمتی تحریک کے ساتھ سندھی قوم، قومی تحریک اور مزاحمتی تحریک کے لیے بڑا سانحہ اور نقصان سمجھتے ہیں۔ جس کا ازالہ بلوچستان اور سندھ کی قومی مزاحمتی تحریکوں کو مزید متحد اور منظم ہوکر اور اپنی مزاحمتی کاروائیوں میں جدت، شدت اور تیزی پیدا کرکے کیا جاسکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ایس آر اے (سندھو دیش ریووولیشنری آرمی) کمانڈر صوفی شاہ عنایت نے اپنے ایک بیان میں کیا ہے۔

ایس آر اے کمانڈر نے کہا کہ استاد اسلم بلوچ گذشتہ 25سالوں سے لیکر بلوچ قوم اور بلوچ مزاحتمی تحریک کے لیے اپنی پوری کمٹمنٹ، سچائی اور ایمانداری سے جدوجہد کرتا رہاہے۔ انہوں نے بلوچ مزاحمتی تحریک میں اپنی قائدانہ اور حوصلہ مندانہ صلاحتیوں کے ذریعے نئی جدت اور نئے ٹرینڈ متعارف کرائے اور اپنے مادر وطن پر قربان ہونے والے فدائین پیدا کئے۔

ایس آر اے کمانڈر نے کہا کہ استاد اسلم بلوچ‘ سندھی قوم اور اس کی قومی مزاحمتی تحریک کے لیے بھی ایک سچے اور مخلص ساتھی، دوست اور بھائی جیسے تھے، ہمیشہ رہنمائی والا کردار ادا کرتے رہے اور سندھ کی قومی تحریک بالخصوص مزاحتمی تحریک کے لیے چھتر چھایہ بنا رہا۔اس لیے ہم استاد اسلم بلوچ سمیت پانچ ساتھیوں کمانڈر کریم مری، اختر بلوچ، سردرو بلوچ، فرید بلوچ اور صادق بلوچ کی شہادت کو بلوچ مزاحتمی تحریک کے ساتھ سندھ کی قومی اور مزاحمتی تحریک کے لیے بھی بڑا نقصان سمجھتے ہیں اور اس دکھ کے موقعے پر بلوچ قوم اور بی ایل اے کے ساتھیوں کے ساتھ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ دنیا کا مانا ہوا قانون ہے کہ دنیا کا کوئی بھی جابر اور فاشسٹ ریاست پاکستانی پنجابی ریاست جیسے کسی بھی قوم اور اس کی تحریک کو شہادتوں کے وصیلے ختم نہیں کرسکی ہے کیونکہ شہادتیں قوموں اور تحریکوں میں نئے حوصلے اور ہمتیں پیدا کرتی ہیں۔

ایس آر اے کمانڈر نے کہا کہ استاد اسلم بلوچ کی شہادت بھی سینکڑوں اور ہزاروں اسلم بلوچ جیسے سپوت جنم دے گی، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دکھ کے موقعے کو طاقت اور حوصلے میں تبدیل کرنے کے لیے بلوچستان اور سندھ کی مزاحتمی تحریکوں کو مزید متحد اور منظم ہونا پڑے گا، اپنی صفوں کودرست کرکے اپنی کاروائیوں کو مزید تیز کرکے آگے بڑھنا ہوگااور اسی طرح ہی ہم اپنے تاریخی وطنوں کو آزاد اور خودمختار حیثیت بحال کروانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔