ازل سے ازلیت تک – برزکوہی

296

ازل سے ازلیت تک

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

سرباز وطن ازل جان مری ویسے تو ظاہری طور پر بچپن سے نوجوانی تک بھیڑ بکریوں کے ساتھ بطور چرواہا رہا، کسی ڈگری کالج، لارنس کالج مری، نمل یونیورسٹی، بولان میڈیکل کالج، لاء کالج، پولی ٹیکنیک انسٹیٹوٹ وغیرہ سے پڑھا لکھا اور فارغ تحصیل بندہ نہیں تھا بلکہ عظیم فلسفی اور علم و دانش کی پیغمبر سقراط کی طرح لوگوں سے، اپنے ماحول سے، اپنی غلامانہ سماج سے اور وقت و حالات کی ادراک سے علم و شعور حاصل کرکے ایک باشعور و باعلم اور باعمل مقام پر پہنچ گیا۔ سقراط اس لیئے بھی میں کہتا ہوں کہ سقراط کو یہ موقع ملا، وہ جوانی سے لیکر بڑھاپے تک سیکھتا رہا، آخر کار سچائی اور سچ کو ثابت کرنے کے لیے زہر کا پیالہ پی کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگیا۔ مگر ازل سیکھتے ہی نوجوانی میں ہی سچائی کی راہ پر چل کر اپنے قومی مقصد کو سچ ثابت کرنے کے لیے بخوشی موت کو گلے لگا کر ہمشہ ہمیشہ اور تاابد زندہ ہوگیا۔

ویسے بھی مختلف انسانوں کو مختلف انسانوں کے ساتھ برابر کرنا یا برابر سمجھنا بلکل غلط ہے اور سراسر غلط بھی ہوگا، مگر کچھ نہ کچھ چیزوں اور خصوصیات کا موزانہ کرنا ممکن ہوگا اور حقیقت بھی ہونگے۔ آج بھی اربوں کی تعداد میں انسانوں میں اگر سائنسی بنیادوں پر موازانہ کریں، صرف دو انسان بھی کسی لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ سو فیصد برابر نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ مختلف تھے اور مختلف رہینگے۔

حقیقی طور پر کوئی بھی بندہ اس وقت تک تعلیم، علم و شعور، ادراک، دلیل، منطق، حواس، ذہانت اور باشعور وغیرہ وغیرہ جیسے چیزوں کی نہ فرق کو سمجھتا ہے، نہ ہی ان کی اصل حقیقت کو سمجھتا ہے، تو اصل میں خود یہ چیزیں کیا ہیں؟ ہاں البتہ روایتی طرز رٹے بازی اور سنی سنائی حد تک سب کے پاس سینکڑوں بھرے ہوئے بوری وضاحت اور تشریح موجود ہیں، مگر جب انسان علم، فلسفہ اور علم نفسیات سے صحیح معنوں میں مستفید ہوکر کچھ سمجھے گا، کچھ حاصل کرے گا، پہلے تو اسے مکمل یہ احساس ہوگا اور حیرت ہوگا، میں کچھ نہیں جانتا ہوں اور جو جانتا ہوں وہ کچھ نہیں، آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ اس کے بعد اس کو کسی نا کسی حدتک کچھ نہ کچھ چیزوں کا مکمل علم نہیں بلکہ صحیح معنوں میں اندازہ ہوگا وہ کیا ہے؟ یہ کیا ہے؟ اور کیسا ہے؟ یہ مسلسل اور زندگی بھر کی جستجو و تجسس لگن و محبت دلچسپی و شوق خود فلسفے کی بنیاد ہے۔

تو یہ سیکھنے اور سمجھنے کی جستجو، محبت، شوق، لگن اور دلچسپی ہی تھی کہ سرباز ازل نے سیکھا اور اسے اپنے وطن اور قوم کے احساس کے ساتھ آنے والے سرزمین بلوچستان پر ہونے والے یلغار، مشکلات اور چیلنجز کا ادراک ہوا۔

ادراک (cognition)
علم طب و فلسفہ اور علم نفسیات سمیت سائنس کی تمام شاخوں میں ادراک سے مراد عقل mind کا وہ operation ہوتا ہے کہ جس کے ذریعے کوئی جاندار کسی حس (sensation) کا احساس کرتا ہے اور پھر اس ادراک سے آگاہی پیدا ہوتی ہے یعنی اس احساس کی بصیرت اور گہرا تاثر دماغ میں نمودار ہوتا ہے، جو گذشتہ یاداشتوں کے ساتھ ملکر تشکیل پاتا ہے۔

چونکہ ادراک کا عمل قدرتی بھی ہوسکتا ہے اور اصطناعی بھی، شعوری بھی ہوسکتا ہے اور لاشعوری بھی، لہٰذا سائنس کی دیگر شاخوں (مثلاً علم کمپیوٹر وغیرہ) میں ادراک کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ ادراک دراصل معلومات کی ایک ایسی (processing) کو کہا جاتا ہے کہ جس میں ان معلومات کو وصول کرنے، انکا تجزیہ کرنے اور انکو سمجھنے کے عمل کا طریقۂ کار انسان جیسا یا یوں کـہہ لیں کہ انسانی دماغ جیسا ہو۔

دماغ تو سب انسانوں کے پاس ہے، مگر ادراک کیوں نہیں؟ ادراک بھی سب جانداروں خاص کر انسانوں کی پاس بھی ہے مگر ادراک کی سطح اور نوعیت کیوں مختلف ہیں؟

اگر معلومات کو وصول کرنا اور انکا تجزیہ کرنا اور سمجھنا پھر انہی معلومات کی بنیاد پر ادراک ہونے کی بات ہے تو پھر وہ معلومات سب میں کیوں نہیں یا پھر سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے کہ ادراک نہیں ہوگا۔

ڈھیر سارے کتابوں کو پڑھنے، ریسرچ و تجزیہ، تبصرہ کرنے کے بعد اگر یہ ادراک نہیں ہو کہ بلوچ قومی بقاء اور تشخص انتہائی خطرے میں ہے پھر یہ ادراک اس انسان کو جو خود اپنے آخری وڈیو پیغام میں کہتا ہے میں نے شروع سے دن رات بھیڑ بکریوں کے ساتھ دن گذارہ ہے، بڑی بڑی لائیبریوں کے گرماگرم تجزیوں، تبصروں اور بحث مباحثوں سے دور لاکھی کی پہاڑوں، چر و جل اور ندیوں سے ادراک حاصل ہونا آخر کیا ہے؟

اگر درد، احساس، ضمیر، غیرت وغیرہ وغیرہ ہے تو یہ سارے چیزیں کہاں سے تشکیل پائے؟ کیوں تشکیل پائے اور کیسے تشکیل پائے؟ میرا مطلب یہ نہیں کہ ہر بلوچ سرباز وطن ازل بن کر فدائی بن جائے مگر یہ ضرور کہتا مجھ سمیت کوئی بھی بلوچ اگر فدائی نہیں بن سکتا اور یہ فیصلہ نہیں کرسکتا لیکن کیا آنے والے حالات کا ہمیں ادراک ہے کہ مستقبل قریب میں بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین کے ساتھ کیا ہوگا؟ اگر ادراک ہے تو ازل کی طرح فدائی ہی نہ صحیح، ہم اپنے باقی ذمہ داریوں کو کس حد تک خلوص، ایمانداری اور دلچسپی سے نبھارہے ہیں؟ سب سے اہم سوال یہی ہے جو میرے ذہن میں گردش کررہا ہے یہ سوال دوسروں سے کم اپنے آپ سے زیادہ کررہا ہوں، بار بار کررہا ہوں مگر مطمین کن جواب موصول نہیں ہورہا ہے۔ یا میں خود کو دوسروں کو مطمین کرنے کی ناکام کوشش کرکے بس اتنا کہوں ہر ایک کا اپنا سوچ اور اپنا احساس ہوتا ہے تو پھر ذہن میں واپس سوال اٹھتا ہے آخر وہ سوچ اور احساس کہاں سے پیدا ہوا؟ اگر قدرت نے دیا؟ پھر قدرت دوسروں کو کیوں عطاء نہیں کرتا؟ پھر ہم ذمہ دار نہیں قدرت ذمہ دار ہے؟ پھر کیا ہم کسی صورت میں موردوالزام نہیں ٹہر سکتے؟ سارا الزام قدرت پر ہوگا؟

کیا ویسے حواس سے علم حاصل ہونا اور علم سے ادراک و احساس، جس کی بنیاد کیا اپنے فکر پر مکمل ایمانداری، خلوص، سچائی، توجہ اور دلچسپی نہیں ہوتا ہے؟

فلسفی ایمانیل کانٹ اپنے فلسفے کے مشہور و معروف انتہائی پرمغز اور مشکل ترین کتاب عقل محض تنقید میں لکھتا ہے کہ ہمارا کل علم حواس سے شروع ہوتا ہے ان سے فہم میں پہنچتا ہے اور فہم سے عقل میں جس سے برتر ہمارے ذہن میں کوئی قوت نہیں ہے۔ اس طرح مواد مشاہدہ ترتیب پاکر وحدت خیال کے تحت میں آ جاتا ہے۔ اس اعلٰیٰ قوت علم کی توضیح کرنا دقّت سے خالی نہیں۔ فہم کی طرح اسکے بھی دو استعمال ہوتے ہیں ایک تو صرف صوری یعنی منطقی استعمال جس میں عقل مشمول علم سے سراسر قطع نظر کر لیتی ہے اور ایک مادی استعمال جس میں خود اسکے اندر سے تصورات اور قضایا پیدا ہوتے ہیں جو نہ تو حواس سے ماخوذ ہیں نہ ہی فہم سے۔ اوّل الذکر قوت کو منطقی بحیثیت بالواسطہ انتاج کی قوت کے پہلے سے جانتے ہیں لیکن آخرالذکر قوت جو خود تصورات پیدا کرتی ہے، اس سے مختلف ہے۔ چونکہ یہاں عقل کی تقسیم منطقی اور قبل تجربی قُوّتوں میں کی جاتی ہے۔ اس لیئے اس قُوّت کا ایک ایسا تصور ہونا چاہئے جو دونوں تصورات پر حاوی ہو۔ ہم فہم کے تصورات کے قیاس پر یہاں بھی یہ توقع کر سکتے ہیں کہ منطقی تصور قبل تجربی تصور کی کنجی ثابت ہوگا اور اوّل الذکر کے وظائف کی فہرست سے قوت عقل کے تصورات کا پورا نقشہ معلوم ہو جائے گا۔

جس طرح اگر سچائی مطلق نہیں، اسی طرح علم و دانش کی کوئی حد اور سرحد نہیں، اسی سلسلے میں کچھ ایسے سوال ہیں جن کو حتمی اور مطمین کن جواب کم از کم میرے پاس نہیں۔ جب ازل سرباز ازل سے لیکر ازلیت تک زندہ رہ سکتا ہے تو لازماً وہ شعور وہ علم، وہ فہم، وہ سچائی، وہ احساس اور وہ ادراک جستجو اور سوچنے پر مجبور کرتا ہے مگر حیران اور پریشان نہیں کرتا ہے۔

کیونکہ ابھی سیدھی سادی بات پر بات آکر رک چکا ہے، بلوچ قومی بقاء، وجود اور تشخص فناء اور تباہی کی دھانے پر کھڑا ہے۔ یہ علم، یہ فہم، یہ احساس اور یہ ادراک آج ازل کو باشعور، علم و دانش کا کرشمہ بنا کر پوری انسانیت اور مظلومیت کے احساس کا پہچان بنا دیتا ہے۔

اٹلی کے ناولسٹ اور صحافی خاتون کیا خوب لکھتی ہے کہ یوں تو تاریخ سب لوگوں کی ہوتی ہے لیکن اس کا تعین چند لوگوں کی طرف سے ہوتا ہے۔

تاریخ ساز دور میں تاریخ کا حصہ بننا ہر گز اور ہرگز بغیر علم و عمل اور شعور کے ممکن نہیں، سرباز ازل ایک باعلم، باعمل اور باشعور بلوچ فرزند تھا، علم و عمل اور شعور ڈگریوں، تعلیمی بلڈنگ اور لائبریریوں کی قید میں نہیں ہوتا۔ یہ انسان کی خلوص، ایمانداری اور سچائی میں کہیں کسی کونے میں چھپا رہتا ہے، ڈوھونڈنے کے لیئے توجہ اور دلچسپی کی ضرورت ہے توجہ اور دلچسپی کی بنیاد خود خلوص سچائی اور ایمانداری میں ہوتا ہے، یہی وہ چیزیں جو سرباز ازل کو تاریخ میں وہ مقام عطاء کرنے میں کامیاب ہوئے، شاید ہمارے جیسے لوگوں کا خود پہنچنا اپنی جگہ وہاں تک سوچنا بھی بس کی بات نہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔