اختر مینگل کے موقف کے تناظر میں
لطیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے گذشتہ روز کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار مِسنگ پرسنز کے کیمپ میں بیٹھے لاپتہ بلوچ اسیران کے لواحقین سے اظہار یکجہتی اور اُنکے دل جوئی کے لئے کیمپ کا دورہ کیا، اُنہوں نے کیمپ میں میڈیا ٹاک کے علاوہ لاپتہ اسیران کے خاندانوں سے بات چیت کیا، اُنہوں نے وہاں انسانی ہمدردی اور اُن خاندانوں کے مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپیل کیا کہ خواتین اور بچے و بچیاں گھروں کو چلے جائیں، وہ اور اُنکی پارٹی لاپتہ افراد کے بازیابی کے لئے ہر ممکن جدوجہد کرینگے، اب یہاں حسب روایت اختر مینگل کے اپیل اور ذاتی رائے کو ایک غلط پیرائے میں لیا گیا اور اُنکے رائے کو سمجھے بغیر سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کیا گیا، اختلاف رائے کیساتھ گالم گلوچ، غداری اور وفاداری کے سرٹیفکیٹس کا انبار لگادیا گیا، ہر کوئی ایک دوسرے سے سبقت لیجانے اور اپنے آپ کو وفادار ثابت کرنے کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک ٹویٹ داغ گیا، بلوچ سیاست میں ایک مخصوص طبقے نے اظہار رائے پر مکمل پابندی عائد کر رکھا ہے۔ پاکستانی مقتدرہ کے طرح وہ بھی کسی دوسرے کے بات اور رائے کو سُننے کے لئے تیار نہیں ہیں، بس ایک نظریہ بناچکے ہیں کہ جو کوئی اُن کے موقف کو مانے گا، وہ بلوچ بھی ہے، وہ محب الوطن بھی ہے، وہ قوم دوست بھی ہے، اگر کوئی اختلاف رکھے گا یا اپنے موقف کا اظہار کرے گا، وہ بلوچیت، قوم دوستی سے فارغ اور غدار ہے، اسی محدود سوچ اور تنگ نظرانہ سیاست کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک مختلف مشکلات کا شکار ہے، جہاں آزادی پسند ایک دوسرے کو برداشت کرنے، سُننے اور سمجھنے کو تیار نہیں، وہ پھر اختر مینگل سمیت کسی دوسرے پارلیمانی سیاستدان کو کیونکر برداشت کرینگے۔
لاپتہ افراد کے لواحقین، گذشتہ کئی دنوں سے کوئٹہ میں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچیوں کی ہے لیکن سوشل میڈیا پر ایکٹو تمام رہنماؤں اور کارکنوں کی خواتین بلوچستان میں موجود ہیں، وہ بجائے سوشل میڈیا پر زبانی جمع خرچ کے عملی کردار ادا کرتے ہوئے اپنے فیمیلز کو بھی اس احتجاج کا حصہ بنائیں، اس انتظار میں نہ رہیں کہ اُن کا کوئی لخت جگر لاپتہ افراد کی لسٹ میں شامل ہوگا، پھر وہ باہر نکلیں گے بلکہ وہ اس کیمپ اور احتجاج کو منظم کرنے کے لئے اس میں عملی طور پر شامل ہوجائیں۔ ماما قدیر گذشتہ کئی سالوں سے تن تنہا اس کیمپ میں بیٹھے رہے لیکن ہم میں سے کسی کو یہ توفیق نہیں ہوا کہ ہم اپنے خواتین اور بچوں کو ماما کیساتھ اظہار یکجہتی کے لئے کیمپ میں بٹھائیں، ہمارے ایکٹوسٹ ایک عجیب ذہن بناچکے ہیں اگر کوئی اُن سے ہمدردی کرے بھی اُس کو گالیوں سے نوازیں گے، اگر کوئی ہمدردی نہیں کرے بھی گالیوں کا حقدار ٹھہرے گا، یہ سوچ، یہ طرز سیاست بلوچ سیاسی روایات اور بلوچ قوم پرستی کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ سوچ، گالم گلوچ کی یہ طرز سیاست پاکستانی سیاستدانوں کا طُرہ امتیاز رہا ہے۔ یہ پاکستانی غلامی کے اثرات ہیں، جو ہمارے روایات، اخلاقیات، سیاست اور رسم و رواج کو پراگندہ کررہے ہیں۔
بلوچ سماج میں عدم برداشت کا رحجان پروان چڑھ رہا ہے احترام، باہمی رواداری، تحمل مزاجی کے فقدان کی وجہ سے نفرتوں میں اضافہ ہورہا، جو لوگ اختر مینگل کی رائے کو ایک غلط رنگ دے کر پیش کررہے ہیں، انہی لوگوں نے بابا مری کے جانب سے لطیف جوہر سے تادم مرگ بھوک ہڑتال کو ختم کرنے کی اپیل کو مسترد کیا تھا، پھر جس ڈرامائی انداز میں تادم مرگ بھوک ہڑتال کو ختم کرنا پڑا وہ بھی بلوچ سیاسی تاریخ کا ایک انمنٹ حصہ بن چکا ہے۔
بلوچ قوم خصوصاً لاپتہ افراد اور اُن کے خاندانوں کے مصائب و مشکلات، پریشانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اس ضد ، انا پرستی، عدم برداشت کے خول سے نکلنا چاہیے انہی غلط روئیوں اور شغان بازی کی وجہ سے ماضی میں بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک بہت سے نقصانات کا سامنا کرچکا ہے لیکن حاصل کچھ نہیں ہوا ہے، ہمارے سیاسی پارٹیوں، تنظیموں اور اداروں کو اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا چاہیئے، اگر اس طرح اپنے کاموں کو چھوڑ کر دوسروں کے کاموں میں مداخلت کرینگے تو ہم آپس میں الجھ کر رہ جائیں گے، آگے نہیں بڑھ سکیں گے، ان حالات میں تمام چیزوں کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیئے، اور اُنکے نقصانات و فائدے کا تعین کیا جانا چاہیے، اپنے رویوں میں تھوڑا لچک پیدا کرنا چاہیئے کیونکہ ایک طویل مسافت ہے اس طویل اور کھٹن مسافت میں ہمیں دشمن کم دوست زیادہ بنانے چاہیئے اور جس طرح اظہار رائے کے آزادی کو ہم اپنا بنیادی حق تصور کرتے ہیں، اس طرح ہمیں دوسروں کی رائے کا احترام کرنا چاہیئے۔
اختر مینگل نے ایک رائے ماما قدیر اور لاپتہ افراد کے لواحقین کے سامنے رکھا وہ زبردستی اُنھیں اُٹھانے نہیں آئے تھے، نہ ہی اُنہوں نے اُن خاندانوں کو دباو میں لایا بلکہ وہ اُنہوں نے اپنے رائے کا اظہار کیا اب ماننا نہ ماننا اُن خاندانوں اور وائس فار مِسنگ پرسنز کے رہنماؤں کے پر منحصر ہے کہ وہ احتجاج اور کیمپ کو جاری رکھتے ہے یا ختم کرتے ہے ۔ لیکن ہمیں ایک دوسرے کے رائے کو سُننے، برداشت کرنے کا مادہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہیئے ۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔