آہ! جنرل
تحریر۔ یاگی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بہت ہی گہری کالی رات میں مست و مگن غلامی کی نیند میں مدہوش سو رہا تھا، بےخبر، بےاحساس، اپنی ذات اور وجود سے کوسوں میل دور تھا۔ کانٹوں میں لپٹے غلامی کے کمبل کو جب شعوری آشوب نے چہرے سے ہٹا دیا تب سے اپنی گذاری نیند سے شرمندگی اور بیزاری شدت سے محسوس کرتا ہوں۔ ضمیر سے وہ خوفناک آوازیں روح کو دبوچ کر کہتے ہیں کہ کہاں مر گئے تھے؟ مردہ انسان جب تمہاری بہنوں کے دوپٹّے اتارے جا رہے تھے، جب تمہاری بوڑھی ماں کی انکھوں سے آنسو سمندر کے طوفانی لہروں کی طرح امڈ رہے تھے، کہاں تھے جب تمہارے سرزمین پر قبضہ گیر کی جانب سے ایٹم بموں کی نمائش ہو رہی تھی؟ کہاں تھے جب تمہارے گھر مسمار ہو رہے تھے؟ کہاں تھے جب تمہارے بھائیوں کی مسخ شُدہ لاشیں ویرانوں میں دفن لاورث تھے؟ جنکی شناخت ممکن نہ ہو سکی؟ کہاں تھے جب تمہارے پیر وکماش والد قبضہ گیر دشمن کی زندانوں میں اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے؟ کہاں تھے جب تمہارے ساحل و وسائل، معدنیات، سرزمین بلوچستان کے حصے حصے کا عالمی منڈیوں میں سودا ہو رہا تھا؟ کہاں تھے جب تمہارے قومی شناخت اور تمہاری پہچان سڑکوں پر سرعام پامال ہو رہا تھا؟ مردہ انسان کہاں گئی تمہاری بلوچی غیرت، کہاں گئے وہ جوش و جذبے، معیار جلی کہاں گئی، وہ قول و اقرار
ما چاکر ئے اولاد ئے گہرام ئے دل ءِ بند ئے پروش ایں ما کلات آن ءَ نازیناں بلوچ ان ءَ
کہاں تھے تم جب تمہارے بچوں کو قبضہ گیر دشمن ریاست بھیڑ بکریوں کی طرح گھسیٹ رہا تھا؟ مردہ ضمیر اب بھی نہ اٹھے پھر نہ کہنا میں زندہ ہوں، میرے گھر بار خاندان اور قوم اور سرزمین تھا کہاں ہے
معیار جلی اور قومی شناخت کا لاج؟
تمہارے بھائیوں نے خوب نبھائیں، آخری سانس تک دشمن کے سامنے وطن کے محافظ رہے، فخر سے سینہ تان کے ڈٹ کر کھڑے، لڑتے رہے۔ غلامی قبول نہیں کی، آزاد خیال ہو کر وطن کی دفاع میں ہمیشہ کے لئے سرخرو ہوئے عظیم رتبہ جام شہادت نصیب ہوئی، اب بھی وقت ہے تمہارے بھائی تمہارے انتظار میں تمہاری راہ دیکھ رہے ہونگے، کاروان آزادی کا راستہ اختیار کر چُکا ہے اٹھو اپنی وطن کی، اپنے قوم کا دفاع کرو۔
وہ خوفناک، دردناک آوازیں مجھے آج بھی شدت سے ستاتی ہیں، میں پُرجوش جواب میں کہتا ہوں کہ میں غلام نہیں ہوں، ہاں میرا سرزمین مقبوضہ ہے، قبضہ گیر میرے وطن پر قابض ہے، پر میں غلام نہیں ہوں۔ میرا قوم غلام نہیں ہے۔ جس دن سے دشمن قابض ہوا ہے، اُس دن سے میرے قوم کے فرزند اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، نواب نوروز خان سے لے کر جنرل اُستاد اسلم جان کی قربانی اور شہادت تک آزادی کی جنگ جاری ہے اور مزید شدت سے وطن کی آزادی تک جاری و ساری رہے گا۔
مجھے سکون ملتا ہے میرے حوصلے بلند چٹان بن جاتے ہیں، میرے قومی فرزند نظریاتی اور فکری شعوری جنگ پر گامزن ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔