آپا دھاپی سے مبرا فلسفیانہ علم و عمل
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
ویسے تو حقیقی و وسیع علم و عمل خاص کر فلسفیانہ علم و عمل انسان کو خود غرضی جیسے موذی مرض سے شفایاب کرتی ہے، کیا واقعی انسان حقیقت کی بنیاد پر خود غرضی سے پاک ہوسکتا ہے؟ نہیں کیوں نہیں؟ کیونکہ انسان کے اندر ایک جانور ہوتا ہے، جب تک وہ جانور زندہ ہوگا اس وقت تک انسان میں خود غرضی کے مختلف معمولی اور غیر معمول شکل ضرور نمایاں ہونگے وہ انسان کے اندر کے جانور کے وجود کے فناعلم و عمل خاص کر فلسفیانہ علم و عمل کے آئینی ہاتھوں میں ہوتا ہے، کیا واقعی دنیا میں تمام فلاسفر بے غرض انسان تھے؟ شاید ہاں یا نہیں مگر اکثریت بے غرض تھے، اگر کوئی نہیں تھا واقعی وہ فلسفی ہوگا؟ یا فلسفیانہ علم سے واقف ہوکر بھی بے عمل رہ کر صرف علم و جاننے تک ہی محدود ہوگا۔
انسان جب بھی فلسفے کی تاریخ اور دنیا میں نامور فلسفیوں کی زندگی کے بارے میں ان کے خیالات و افکار نظریات و فکر کے ساتھ تخلیقات اور تھیوری کو پڑھتا اور سمجھتا ہے تو عقل دنگ ہوکر رہ جاتا ہے یعنی ساتھ ساتھ شرمندگی ہوتا ہے خیر بقول عظیم مفکر و فلاسفر کارل مارکس کے کہ شرم بھی انقلابی جذبہ ہوتا ہے۔
بالکل مارکس نے صحیح کہا ہے جب شرم کا جذبہ نہ ہو تو انقلابی بننا مشکل نہیں ناممکن ہوگا پھر انسان بے حس اور خود غرض ہی ہوگا۔ کائناتی مسائل کو عقیدے کی بجائے علم و عقل سے حل کرنے کی سوچ و فکر اور جستجو کو سب سے پہلے یونانی فلاسفر فیثا غورث نے فروغ دیا۔ فلسفے کی اصطلاح رائج کرنے والا خود کو فلسفی کہنے والا یونانی فلسفی فیثا غورث ہی ہے۔ روایت ہے کہ فیلس کے حکمران نے جب فیثا غورث سے پوچھا کہ اس کا پیشہ کیا ہے؟ تو جوابا فیثا غورث نے کہا انسانی زندگی کی تشبیہ کسی بڑے میلے یا تماشے سے دی جاسکتی ہے جہاں بہت سے لوگ اس غرض سے آتے ہیں کہ اپنے کرتب دکھا کر نام پیدا کریں اور بہت سے اس لیے آتے ہیں کہ خرید و فروخت سے مالی منفعت حاصل کریں لیکن معدودے چند لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو نہ حصول شہرت سے غرض ہوتی ہے نہ مالی منفعت سے بلکہ جو زیادہ عالی حوصلہ ہوتے ہیں وہ صرف اس لیے آتے ہیں کہ ایسے مواقع کی مختلف کیفیات کا علم و تجربہ حاصل کریں اس طرح دنیا میں جہاں عموعا لوگ شہرت یا منعفت کی سعی و حصول میں مصروف رہتے ہیں بعض افراد ان عام دنیوی محرکات سے بے نیاز ہوکر اپنا مقصد زندگی صرف مطالعہ فطرت و انکشاف ہستی قرار دے لیتے ہیں ان لوگوں کو میں فلسفی کہتا ہوں اور میرا شمار اسی جماعت سے ہے اور فلسفی فیثا غورث نے یہ بھی کہا تھا کہ فلسفی کو کبھی بھی شہرت اور مالی فائدے سے غرض نہیں ہوتی۔
اسی طرح 17 ویں صدی میں یہودی ڈچ خاندان میں پیدا ہونے والے، ڈیکارٹ اور سپنوزا ڈچ روشن خیالی کے سنہرے دور کے سرکردہ فلاسفرز تھے۔ سپنوزا نے ساری زندگی بڑی سادگی سے گذاری۔ یہ دور بین اور خورد بینوں کے عدسے Lens بنانے کا دستکار تھا۔ شیشے کی رگڑائی سے شیشے کی دھول اڑتی تھی، جو سانس کے زریعے پھیپھڑوں میں جاتی رہی۔ اسی وجہ سے اس کو سانس اور پھیپھڑوں کے امراض ہوگے، جس کی وجہ سے اس کی قبل از وقت 44 سال کی عمر میں موت واقع ہوگئی۔
اس سوشل بائیکاٹ کے بعد اسپنوزا نے اپنی زندگی کے 21 سال فلسفہ و فکر کے مطالعے اور لکھنے میں گذارے۔ اس کے ملحد ہونے پر اس کی زندگی کے دوران اور بعد میں مذاق اڑایا گیا، لیکن اس کے مخالفین بھی اس بات کو تسلیم کرتے تھے، وہ ایک صوفی منش آدمی تھا۔ اس سے ذاتی طور پر کسی کو کبھی تکلیف اور شکوہ نہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے دوربینوں کے کئی لینز ایسے بنائے جو اس وقت یورپ کی سب سے بڑی دوربین تھی۔ اس کے بنائے لینزوں کی کوالٹی بھی بہت اچھی ہوتی تھی۔ یہ بہت باریک بینی کا کام تھا۔ اور اس وقت اس کے لئے اوزار بھی سادہ نوعیت کے تھے۔ اور اسی کام سے اس کی جلد زندگی کا خاتمہ بھی ہوگیا، گویا اس فلاسفر نے عملی سائنس کے کام میں اپنی جان بھی قربان کی ہوئی ہے۔
سپنوزا کو یونیورسٹی آف ہیڈل برگ فلاسفی ڈیپارٹمنٹ کے صدر کی حیثت سے آفر کی گئی، لیکن اس نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ کیونکہ وہ سوچتا تھا کہ کسی ادارے کے ساتھ منسلک ہو کر اس کی آزادی فکر اور آزادی اظہار کمپرومائز ہو جائے گی۔ اسے خراج عقیدت دیتے ہوئے کہا گیا، سپنوزا نے بطور فلاسفر آیک آئیڈیل لائف گذاری۔ وہ فلسفی تھا، اور کچھ نہ تھا۔ نہ اس نے کسی اور چیز میں دلچسپی لی، حتی کہ اس نے زندگی بھر شادی نہ کی۔اور لگتا ہے کہ جنسی تعلقات میں بھی ملوث نہ رہا۔ اکثر وہ اپنے کمرے سے کئی کئی دن تک باہر نہ نکلتا تھا۔ اس کا اپنی ذات کا کوئی خرچہ نہ تھا۔
عہد جدید کے افکار کی بنیاد رکھنے والا یہ فلاسفر نہایت سادہ کفایت شعار زندگی کے ساتھ انسانیت کو بھلائی ، برداشت، اخلاقیات اور روشن خیالی کے بے بہا افکار دے گیا۔ اسپنوزا کی تمام کتابیں اس کی زندگی کے بعد شائع ہوئی۔ اور اسے پرنس آف فلاسفرز کا نام دیا گیا۔
بہت سے ایسے بے غرض فلاسفروں میں شمار یونان کا ایک اور فلسفی دیو جانس جو کلبیہ کے نام سے مشہور تھا وہ کہتا تھا
” میں لطف اندوز ہونے پر دیوانہ ہونے کو ترجیح دوں گا” یہ تھے کلبیہ اہل فکر کے بانی اینٹستتھیسز (Antisthenes) جو کہ سقراط کے شاگرد تھے، یہ روایات اور عقائد کے باغی تھے ان کا شاگرد دیو جانس جن کے ذریعے سے ہم تک یہ فکر پہنچی بقول رسل “وہ دنیا میں تمام مروجہ سکّوں کو مسخ کرنا چاہتا تھا ،ہر روایتی مُہر جھوٹ تھی وہ اشخاص جن پر بادشاہوں یا جرنیلوں کی مُہر لگی تھی ،وہ امور جن پر عزت ،دانائی ‘مسرت اور امارات کی مُہریں لگیں تھیں یہ سب سکّے کھوٹے دھات کے بنے تھے اور ان پر جھوٹ کی عبارت کندہ تھی” وہ کتے کی مانند زندگی بسر کرنا چاہتا تھا، یہی وجہ تھی جس سے اس مکتب فکر کا نام کلبیہ پڑا۔ کلب یعنی کتا
یہ لوگ ہر روایت کے باغی بنے اور دیوجانس وہی تھے جب سکندر اعظم نے ان سے کہا کہ کیا مانگتے ہو تو جواب میں دیوجانس نے کہا آپ مجھے دینے کے بجائے میرے سامنے کھڑے ہوکر میرا دھوپ لے رہے ہو، آپ میری دھوپ چھوڑ دیں۔
کیا یہ بھی ہم جیسے انسان تھے یا نہیں؟ اگر فرض کریں واقعی انسان تھے پھر کیوں بے غرض تھے؟ وہ وجوہات محرکات اور اسبباب کیا تھے؟ اگر جواب یہ موصول ہوتا ہے کہ حقیقی علم و عمل اور فلسفیانہ علم و عمل سے بہرہ ور تھے کیا پھر کوئی بھی خود غرض انسان باعلم اور باعمل کہنے اور سمجھنے کی مستحق ہوگا؟ کیا خود غرض انسان علم و عمل کی حقیقی معیار پر پورا اترسکتا ہے؟ کیا پھر واقعی تمام کے تمام خود غرض لوگ حقیقی علم و عمل کی تعریف اور معیار کی بنیاد پر جاہل اور بے عمل ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کیسے؟
ویسے خود غرضی کی بہت سارے چھوٹے موٹے معمولی اور غیر معمولی اشکال ہیں لیکن خود غرضی کی سب سے غیر معمولی شکل اور ذیلی خود غرضیوں کی بنیادی جڑ اور ماں ہمیشہ دولت، شہرت اور طاقت ہوتا ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرتا ہے بلکہ انکار کرنا ناممکن ہے، آج ایسا کوئی بھی انسان نہیں ان تین چیزوں سے مبرا ہو مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے، ان کو حاصل کرنے کا ذریعہ اور طریقہ کار کیا ہے؟ ایک طرف سچائی اخلاقی حقیقت محنت اور جائز ذریعہ اور طریقہ کار دوسری طرف جھوٹ غیر اخلاقی منافقت اور ناجائز طریقہ کار۔ اس فرق کو سمجھنا و جاننا پھر آکر وہاں رک جاتا ہے جہاں علم و عمل کی دور دور آثار ظاہر نہ ہو۔
حقائق، سچائی، اخلاقی حقیقت پسندی اور جائز طرز پر چلنے والے انسانی اور قومی تحریکوں میں جب تک قیادت سے لیکر کارکنوں تک بے غرضی کا شعور نہیں ہوگا، اس وقت تک تحریکوں کی منظم و مضبوط شکل اور کامیابی ادھورا خواب ہوگا اور بے غرضی کی شعور علم و عمل سے بغیر ناممکن ہے تو علم اور عمل تحریکوں میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس کے بغیر پورا جسم خدا کرے کس حد تک تندرست کیوں نہ ہو لیکن وہ کبھی فعال نہیں ہوگا۔جب تک ریڈھ کی ہڈی تندرست اور مضبوط نہیں ہوگا، جسم اپاہج ہی کہلائے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔