آخری گولی کا فلسفہ
تحریر: لطیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
علم، عقل و دانش اور شعور کے بغیر تحریکیں بھی کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ بندوق کو ہاتھ میں تھام لینے کے لئے بھی علم اور شعور ہونا چاہیئے۔ ویسے بندوق کسی چور، ڈاکو، باڈی گارڈ اور ریاستی پولیس و فوجی اہلکار کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن ایک مزاحمتکار کار، ایک وطن زادے کا بندوق ایک نظریئے کا پابند ہوتا ہے، علم اور نظریہ سوچ کو مستحکم بناتے ہیں، علم و شعور بخش دیتا ہے، علم ظلم و جبر، ناانصافی اور غلامی کے خلاف لڑنے کا شعور دیتا ہے، مزاحمت بھی ایک علم ہے بغیر علم و شعور اور مزاحمتی تعلیم کے بندوق نظریئے کا پابند نہیں ہوتا بلکہ نظریہ بندوق کا پابند ہوتا ہے۔ جب نظریہ بندوق کا پابند ہوگیا پھر وہ بندوق ذاتی مفادات کے لئے استعمال ہوتا ہے، اگر بندوق نظریئے کے پابند بن گیا پھر قومی مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
بلوچ مزاحمتکاروں کا بندوق ایک نظریئے کے تابع ہے، وہ نظریہ قومی غلامی، قبضہ گیریت سے نجات اور ایک آزاد سماج آزاد وطن کی قیام کا نظریہ ہے، اس عظیم مقصد اور نظریئے نے بلوچ نوجوانوں کے سوچ کو پختگی اور تقویت بخش دیا ہے، آج بلوچ نوجوان آخری گولی کو اپنے نام کرکے اپنی موت کا انتخاب کررہے ہیں، میگزین کی اس آخری گولی کے فیصلے نے دشمن کو حواس باختہ کیا ہے، جب آپ لڑنے و مرنے کا شعوری فیصلہ کرتے ہو پھر میدان چھوڑ کر دشمن کو پیٹ دکھا کر نہیں بھاگتے بلکہ آخری گولی اور آخری سانس تک لڑتے رہتے ہیں۔
جب کہ کسی قبضہ گیر ریاستی فوجی کا بندوق کسی نظریئے کے تابع نہیں بلکہ معاشی مفادات کے تابع ہوتا ہے، فوج میں بھرتی شعوری طور پر نہیں بلکہ تنخواہ، مراعات اور معاشی مفادات کی تکمیل کے لیئے ہوتا ہے، وہ اس نوکری کا انتخاب کرتا ہے اس لیئے وہ مرنے سے بھاگنے کو ترجیح دیتا ہے، اس کا مثال بنگلہ دیش میں 93 ہزار فوجیوں کا اجتماعی سرینڈر سے لیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ بلوچستان میں بھی اس کے کئی مثالیں موجود ہیں کہ وہ کس طرح اپنے ساتھیوں کو گھیرے میں چھوڑ کر بھاگ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے برعکس بلوچ مزاحمتکار ہمشہ اپنے ساتھیوں کو گھیرے سے نکالنے کے لئے لڑتے رہتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو محفوظ راستہ دینے کے لئے کئی بلوچ سرفروش لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کرچکے ہیں، بھاگنے اور دشمن کے ہاتھ لگنے و قومی رازوں کو افشاں کرنے کے بجائے آخری گولی اپنے نام کرکے تاریخ میں امر ہوئے ہیں، آخری گولی سے موت کا انتخاب شہید امیر الملک بلوچ نے کیا تھا آج اُن کا یہ فلسفہ ایک نظریہ بن چکا ہے۔
ہائی ڈیگر کے نزدیک موت کی مستقل آگہی سے اصل زندگی ترتیب پاتی ہے۔ اگر موت ایک مقصد کے لئے ہو اور اُس مقصد کے تکمیل کے لئے کوئی موت کا انتخاب کرتا ہے میرے خیال میں وہ زندگی کو ترتیب دیتا ہے، زندگی کی مقاصد واضح کرتا ہے کیونکہ مرنے کے بعد زندہ رہنا حقیقی زندگی ہوتی ہے، اگر آپ زندہ ہیں اور زندگی ک کوئی مقصد نہیں ہے، اُس بے معنی اور بے مقصد زندگی سے بامقصد موت بہتر ہے۔
سارتر زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ہمارا وجود بغیر کسی سبب و معقولیت اورضرورت کے تحت دنیا میں نظرآتا ہے۔ تمام زندہ افراد بغیر کسی وجہ کے دنیا میں آتے ہیں۔ مجبوریوں اور کمزوریوں کا بوجھ اٹھاتے زندہ رہتے ہیں۔ وہ ایک دن حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مجبوریوں اور کمزوریوں کے بوجھ تلے دب کر زندگی گذارنے اور حادثے کا شکار ہوکر زندگی کے اختتام سے بہتر ہے انسان زندگی کو ایک بڑے مقصد کے لئے موت کے حوالے کرے، وہ عظیم موت 70 سال زندہ رہنے والے انسان کو ہزاروں سالوں تک زندہ رکھتا ہے۔
شہید رازق عرف جلال بلوچ اپنے زندگی کی اختتام سے کچھ لمحات پہلے لکھتا ہے میں کیا ہوں؟ وہ آگےلکھتے ہیں یہ سب کچھ ہم اپنی فطرت بنا چکے ہیں اور ہم اس وقت تک یہ ختم نہیں کر پائینگے جب تک ہم خود سے لڑنا نہ سیکھ لیں، اپنے اندر کے انا پرستی کو مارنا سیکھ نہ لیں اور خود میں خود پیدا کردہ الجھنوں سے نہیں نکل سکیں، کچھ جگہوں پہ رشتوں اور انسانیت کے اصولوں کے سامنے جھکنا سیکھ نہ لیں۔
یہ سب ایک انسان کر سکتا ہے لیکن صرف اس سوچ نے ہمیں تباہ کر رکھا ہے کہ پہلے میں ہی کیوں اگلا کیوں نہیں؟
یہ بہانے، جھوٹ، بزدلی اور منافقت کے علاوہ کچھ نہیں، اس وقت تک ہمارے اندر کا غرور اور تکبر نہیں مر سکتا جب تک ہم رشتوں اور انسانیت کی رسی کو تھامنے کے واسطے جھکنا سیکھ نہ لیں، کیونکہ یہ سب ایک مسافر کو زیب نہیں دیتا، جو چند سالوں کے لیئے اس سر زمین کا حصہ ہے اور پھر باقی تمام لوگوں کی طرح یہ بھی دنیا چھوڑ کر اسکے وجود کا خاتمہ ہوگا۔ توکیوں نہ کچھ ایسا کریں جو انسانیت کی سربلندی اور مشعل راہ بنے۔ اپنی قوم و سرزمین کیلئے سرخرو ہوکر ہمیشہ فناء نہیں زندہ ہونا کیا کمال کی بات نہیں ہوگا؟
شہید رزق عرف جلال بلوچ کے ان خیالات پر غور کرکے زندگی اور موت اور آخری گولی کے فلسفے کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔