بی ایس او کا اکیاون واں یومِ تاسیس
تحریر: توارش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کی سیاسی تاریخ، بی ایس او کے بغیر نا مکمل ہے بلوچ نوجوانوں سے لیکر بزرگوں تک سب قبائلیت کے ملبے تلے دبے ہوئے تھے تو اس وقت بی ایس او ایک روشن ستارے کی مانند ابھر آیا اور آنے کے بعد چھا گیا، جیسے مانو بلوچ ایک صدی سے بی اس او کے انتظار میں بیٹھے تھے، بی ایس او کا وجود ایک انقلاب کا وجود تھا، وہ انقلاب جس کیلئے ہر کوئی بیتاب تھا۔ قبائلی ذہنیت اور سرکاری سوچ کے برخلاف ایک انقلابی سوچ اور نظریئے کے ساتھ بی ایس او بلوچ نوجوانوں کے دل میں اتری اور ایسے اتری کے دوبارہ کبھی نوجوانوں کے دل سے بی اس او کی محبت و چاہت ختم نہیں ہوئی، آج بھی نوجوانوں کے دل میں بی ایس او ایسے سمویا ہوا ہے کہ مسخ شدہ لاشیں جبری گمشدگیاں اور ریاستی خوف و ڈر نوجوانوں کو بی ایس او سے دور کرسکنے میں ناکام ہوئی ہیں۔
بی ایس او کا ظہور ایک ایسے وقت میں ہوا، جب بلوچستان میں پاکستان کیلئے ایک اچھی خاصی نفرت پائی جاتی تھی، اس کی ایک وجہ نواب نوروز اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ پاکستانی فوج کا دھوکا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشنز تھیں۔ ایک تو بلوچستان پر پاکستانی جبری قبضے نے بلوچوں کی دل میں پاکستان کیلئے نفرت بویا تھا جبکہ دوسری جانب پاکستان اس نفرت کو بلوچستان میں جاری ظلم اور زیادتیوں سے مزید بڑھا رہا تھا، نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم کی ضرورت تھی اور بالآخر غالبا 1962 میں بلوچ نوجوانوں نے بی ایس ای او(بلوچ اسٹوڈنٹ ایجوکیشنل آرگنائزیشن) کا نام سے ایک طلباء تنظیم بنائی جو پانچ سال گُذرنے کے بعد 26 نومبر 1967 کو باقاعدہ اپنی اصل شکل میں سامنے آیا بی ایس او کا بنیادی مقصد بلوچ قومی حقوق کیلئے پاکستان سے لڑنا تھا لیکن اسی دوران کچھ مفاد پرست شخصیات نے بی ایس او کی عظیم قوت اور فکری و ںطریاتی سوچ کے برخلاف اپنے مفادات کیلئے بی ایس او کو استعمال کیا، پھر بعد میں تنظیم مختلف دھڑے بندیوں کی شکل اختیار کرتا گیا، پھر جس کسی کو تنظیم سے نکال باہر کیا گیا انہیں نے اپنا ایک الگ بی ایس او بنایا اس سے کافی حد تک نوجوانوں کے اندر بی ایس او کیلئے مایوسی پھیلتی گئی سرداروں سے لیکر پارلیمانی پارٹیوں تک سب نے بی ایس او کو توڑنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ مختصراً کچھ مدتوں کیلئے نوجوان بی ایس او کی جدوجہد سے مایوس ہوئے لیکن چونکہ بی ایس او کا وجود ہی انقلابی نظریات سے ہوا تھا، اس لیئے کچھ انقلابی نوجوانوں نے اس تنظیم کا باگ ڈور اپنے ہاتھوں سنبھال لیا اور پارلیمانی اور سرداری سیاست کو خیرباد کہہ کر بلوچ نوجوانوں کو یکجاہ کیا اور بلوچستان کی مکمل آزادی کیلئے جدوجہد شروع کی یہ سارے پڑھنے لکھے لوگ تھے، جن میں ڈاکٹر اللہ نظر سرفہرست تھا بی ایس او کے ان نوجوانوں نے پورے بلوچستان میں تنظیم کو فعال کیا اور کچھ ہی سالوں میں بی ایس او اپنے بنیادی ٹریک پر آ گیا۔
بی ایس او کو پارلیمنٹرین اور سرداروں کے چنگلوں سے نکال کر نوجوانوں نے پھر سے ایک نئی اُمید لوگوں کے دل میں جگائی اور اس سرخ پرچم تلے پورے بلوچ نوجوان جمع ہوئے، پھر مکران سے لیکر سراوان، جھالاوان اور پورے بلوچستان میں ایک ہی نعرہ گنگنانے لگا، بی ایس او کا نعرہ ہے بلوچستان ہمارا ہے، پھر کیا وطن سے عشق کا جنون ہر نوجوان پر سوار ہوا اور پاکستانی ناجائز قبضے کے خلاف پورے بلوچستان میں بی ایس او نے مہم شروع کیا، بچے بچے کو اپنی غلامی کا احساس ہونے لگا۔
بی ایس او کی طاقت کو دیکھتے ہوئے پارلیمانی پارٹیوں نے دانستہ طور پر اختلافات کے نام سے اپنے اپنے دھڑے قائم کرلیئے لیکن بلوچ نوجوانوں کی اصل قوت بی ایس او سے بی ایس او آزاد بنی اور آج اکاون سال بعد بھی بی ایس او اپنے ترقی پسندانہ سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، اس دورانیے میں بی ایس او کے دوستوں نے کئی نشیب و فراز کا سامنا کیا۔ کئی دوستوں کی مسخ شدہ لاشیں ملیں، کئی جبری طور پر لاپتہ ہوئے، تنظیمی کارکناں پر ریاستی جبر ظلم اور زیادتیاں آسمان کو چھو رہیں تھیں، لیکن بی ایس او کے سنگتوں نے ان سب مشکلات کا سامنا کیا اور آجتک بی ایس او کے اصل نظریے کو اپناتے ہوئے جدوجہد کر رہے ہیں۔
آج بی ایس او سے وابستہ کئی کارکناں پاکستانی زندانوں میں قید دشمن کا دیدہ دلیری سے مقابلہ کر رہے ہیں لیکن اپنے نظریات سے قطعاً غافل نہیں ہوئے ہیں، شاید دنیا کا واحد طلباء تنظیم بی ایس او ہوگا جس کا مرکزی قیادت کئی سینکڑوں کارکناں سمیت زندانوں میں قید اور سینکڑوں شہید کئے گئے ہیں۔ اس کے باوجود اپنے وجود کو برقرار رکھتے ہوئے ریاست کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آج بی ایس او کا اکاون واں یومِ تاسیس کا دن ہے، اس دن بی ایس او کے تمام کارکنان اور مرکزی قیادت کو یہ عہد کرنا چاہیئے کہ تنظیم کو مزید بہتر بناتے ہوئے قومی امنگوں کے مطابق پالیسیاں ترتیب دینگے اور پاکستانی قبضہ کے خلاف جدوجہد کو مزید وسعت دینگے بی ایس او کا یہ کاروان بلوچستان کی مکمل آزادی تک جاری رہنا چاہیئے، بقول چیئرمین زاہد بی ایس او بلوچ قومی تحریک کا مادر آرگنائزیشن ہے ایک مادر آرگنائزیشن کی حیثیت سے بی ایس او کی لیڈرشپ کو مزید جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔